کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 96
تیسرا باب:
لشکر اسامہ اور مرتدین سے جہاد
(۱)لشکر اسامہ کو روانہ کرنا
عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جزیرئہ عرب کے پڑوس میں روم و فارس کی دو عظیم سلطنتیں پائی جاتی تھیں ۔ رومی، جزیرئہ عرب کے شمال میں ایک بڑے حصہ پر قابض تھے اور ان علاقوں کے امراء رومی سلطنت کی طرف سے مقرر کیے جاتے تھے اور اس کے اوامر کے پابند ہوتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علاقوں میں مبلغین اور فوجی دستوں کو روانہ فرمایا اور دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے شاہ روم ہرقل کو خط بھی بھیجا جس میں اس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔[1] لیکن اس نے سرکشی کی اور گناہ کا غرور اس پر سوار ہوا۔ گیارہ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلقاء (اردن) وفلسطین میں رومیوں پر چڑھائی کرنے کے لیے لوگوں کو تیار کیا۔ ان میں کبار مہاجرین وانصار صحابہ شریک ہوئے اور ان پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو امیر مقرر فرمایا۔[2]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی تیاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے دو روز قبل بروز ہفتہ مکمل ہوئی اور اس کا آغاز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری سے قبل ہو چکا تھا۔ آپ نے ماہ صفر کے اواخر میں جنگ کی تیاری کا حکم دیا، اسامہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: اپنے والد کی شہادت گاہ کی طرف روانہ ہو جاؤ، میں نے تم کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا ہے۔[3] بعض لوگوں کو اسامہ رضی اللہ عنہ کی امارت پر اعتراض پیدا ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اگر آج تم اسامہ کی امارت پر اعتراض کرتے ہو تو اس سے قبل اس کے والد زید کی امارت پر بھی تمھارا اعتراض تھا، اللہ کی قسم وہ امارت کے قابل تھا اور وہ میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور اس کے بعد یہ اسامہ میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے ہے۔[4]
تیاری شروع ہونے کے دو دن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑ گئے اور آپ کی بیماری بڑھ گئی، جس کی وجہ سے یہ لشکر روانہ نہ ہو سکا اور مقام جرف[5] میں ٹھہرا رہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر مدینہ واپس چلا آیا۔[6]
[1] البخاری: الوحی: ۷۔
[2] قصۃ بعث جیش اسامہ: د/ فضل الٰہی ۸۔
[3] فتح الباری: ۸/۱۵۲۔
[4] البخاری: المغازی ۴۴۶۹۔
[5] یہ مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر شام کی طرف واقع ہے۔
[6] السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: ۲/۵۵۲، السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الاصلیۃ: ۶۸۵۔