کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 94
پا کر اپنے والد سے ملنے والی ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خبر دی تھی پس جس کی یہ صورت حال ہو وہ دنیاوی امور میں کہاں دلچسپی لے سکتا ہے۔ یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا اور خلیفہ رسول ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان زیادہ اتصال نہ رہ سکا، جن کو قطع تعلق پر محمول کر لیا گیا۔ مہلب رحمہ اللہ نے کتنی اچھی بات کہی ہے، جسے علامہ عینی نے نقل کیا ہے: ابوبکر اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے درمیان میراث کے مسئلہ میں ملاقات ہوئی اور اس کے بعد فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر کو لازم پکڑا جسے راوی نے قطع تعلق سے تعبیر کر دیا۔[1] تاریخی حیثیت سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں مدینہ کے مال فے، فدک کے اموال اور خیبر کے خمس میں سے اہل بیت کے حقوق برابر ادا کرتے رہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس میں میراث کا حکم جاری نہیں کیا۔ محمد بن علی بن حسین الباقر اور زیدبن علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہم سے روایت ہے کہ ان دونوں نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہمارے آباء واجداد کے ساتھ کوئی ظلم وزیادتی نہیں کی۔[2] فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ۳ رمضان المبارک ۱۱ ہجری شنبہ کی رات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال سے چھ ماہ بعد ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو پہلے سے بتا چکے تھے کہ آپ کے اہل بیت میں سب سے پہلے آپ ہی ان سے ملیں گی اور اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا تھا: (( اما ترضین ان تکونی سیدۃ نساء اہل الجنۃ۔))[3] ’’کیا تم اس سے خوش نہیں ہو کہ تم جنتی عورتوں کی سردار ہو گی۔‘‘ علی بن حسین رحمہ اللہ کی روایت ہے: فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال مغرب وعشاء کے درمیان ہوا۔ ابوبکر، عمر، عثمان، زبیر اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم حاضر ہوئے اور جب نماز جنازہ کے لیے آپ کو رکھا گیا تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ابوبکر آگے آیئے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوالحسن آپ موجود ہیں ؟ فرمایا: ہاں میں موجود ہوں لیکن آپ آگے بڑھیں ، واللہ آپ ہی نمازِ جنازہ پڑھائیں گے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور رات ہی میں تدفین عمل میں آئی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبیریں کہیں ۔[4]
[1] اباطیل یجب ان تمحی من التاریخ: ۱۰۸۔ [2] المرتضی للندوی: ۹۰۔۹۱، نقلًا عن نہج البلاغۃ شرح ابن ابی الحدید۔ [3] المرتضی للندوی: ۹۴، یہ روایت صحیح بخاری کی ہے۔ دیکھیے صحیح البخاری: المناقب ۳۶۲۴۔ (مترجم) [4] المرتضی للندوی: ۹۴، الطبقات الکبری: ۷/۲۹۔