کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 93
متعلق جو صحیح روایات آئی ہیں وہ میراث سے متعلق ہیں اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اکابر صحابہ نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی خبر دی ((لا نورث ما ترکنا صدقۃ )) ’’ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ تو ان سب نے اس کو قبول کیا اور جان لیا کہ یہی حق ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد نہ فرمایا ہوتا تو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو بھی عائشہ وحفصہ رضی اللہ عنہما کی میراث کے ذریعہ سے وافر مقدار میں حصہ ملتا۔ لیکن انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو ترجیح دی اور عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما اور دیگر لوگوں کو میراث سے روک دیا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی وارث ہوتا تو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے لیے یہ انتہائی فخر کی بات تھی کہ ان کی بیٹیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثوں میں ہوتیں ۔[1]
فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ناراض ہونے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قطع تعلق کر لینے کے سلسلہ میں جو روایات بیان کی جاتی ہیں وہ متعدد دلائل کی بنا پر بعید از قیاس اور بے بنیاد ہیں ۔ ان دلائل میں سے چند یہ ہیں :
٭ امام بیہقی نے امام شعبی کے طریق سے روایت کی ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے۔ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں ، تمھارے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا آپ اجازت دینا پسند کرتے ہیں ؟
فرمایا: ہاں ۔
پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دی، آپ کے پاس ابوبکر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے آپ کو خوش کرنے لگے اور آپ خوش ہو گئیں ۔[2]
اس سے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے قطع تعلق کا اشکال زائل ہو جاتا ہے۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ آپ خود فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار میرے نزدیک اپنے قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی سے زیادہ محبوب ہیں ۔[3]
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اتباع میں کیا۔[4]
٭ ایک طرف فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم میں نڈھال تھیں ، جس کے سامنے تمام مصیبتیں ہیچ تھیں اور خود بھی بیمار پڑ کر صاحب فراش ہو گئیں اور دوسری طرف ابوبکر رضی اللہ عنہ امور خلافت اور مرتدین سے قتال میں اس قدر مشغول ہوئے کہ معمولی فرصت بھی نہ رہی اور پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا کو معلوم تھا کہ وہ جلد وفات
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۵/۲۵۲۔ ۲۵۳۔ ابن کثیر نے اس کی سند کو قوی اور جید قرار دیا ہے۔
[2] اباطیل یجب ان تمحی من التاریخ: ۱۰۹۔
[3] البخاری: ۴۰۳۶۔
[4] العقیدۃ فی اہل البیت بین الافراط والتفریط: د: سالم السُّحیمی ۲۹۱۔