کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 90
پھر آگے بڑھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔
پھر آپ نے لوگوں پر نظر دوڑائی، دیکھا علی رضی اللہ عنہ نظر نہیں آرہے ہیں ، ان کو بھی بلوایا، وہ حاضر ہوئے، آپ نے ان سے فرمایا:
’’کیا مسلمانوں کی جمعیت کو توڑنے کا ارادہ ہے؟‘‘
عرض کیا: خلیفہ رسول! ایسی کوئی بات نہیں ۔
پھر آگے بڑھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔[1]
عمرو بن حریث نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت موجود تھے؟
فرمایا: ہاں ۔
عمرو: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کب عمل میں آئی؟
سعید: جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ بغیر جماعت وامام کے مسلمانوں کو دن کا کچھ حصہ گذارنا بھی ناپسند تھا۔
عمرو: کیا کسی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی؟
سعید: نہیں ، کسی نے مخالفت نہیں کی، صرف مرتد یا ارتداد سے قریب شخص نے مخالفت کی۔ انصار کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا انھوں نے آپ کی خلافت پر متفق ہو کر آپ سے بیعت کی۔
عمرو: کیا مہاجرین میں سے کوئی آپ کی بیعت سے پیچھے رہا؟
سعید: نہیں ، بلکہ مہاجرین تو آپ کی بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے؟[2]
علی رضی اللہ عنہ تو کسی وقت بھی آپ سے جدا نہیں ہوئے اور کسی جماعت میں آپ سے کٹ کر نہیں رہے، مسلمانوں کے امور کی تدبیر اور مشورے میں برابر شریک رہتے۔[3]
حافظ ابن کثیر اور بہت سے اہل علم کا خیال ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے چھ ماہ یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بیعت کی دوبارہ تجدید فرمائی۔ اس دوسری بیعت سے متعلق صحیح روایات وارد ہیں ۔[4]
علی رضی اللہ عنہ خلافت صدیقی میں بھلائی وخیرخواہی کا محور و مرکز تھے۔ اسلام اور مسلمانوں کے مصالح کو ہر چیز پرترجیح دیتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے آپ سے مخلص ہونے، اسلام اور مسلمانوں کے لیے خیر خواہ، خلافت کی حفاظت و بقا اور مسلمانوں کی یکجہتی کے حریص ہونے پر آپ کا وہ مؤقف روشن دلیل ہے جو آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۵/۲۴۹، امام ابن کثیر نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
[2] الخلفاء الراشدون: ۵۶۔
[3] الخلفاء الراشدون: ۵۶۔
[4] البدایۃ والنہایۃ: ۵/۲۴۹۔