کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 89
۳۔ حضانت (پرورش) کا حق ماں کا ہے جب تک دوسری شادی نہ کر لے:
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی انصاری بیوی کو طلاق دے دی جو عاصم کی ماں ہیں ۔ وادی مُحسِّر[1] میں دیکھا کہ وہ ان کے بچے کو لیے جا رہی ہے اور بچہ دودھ چھوڑ چکا تھا اور اپنے پاؤں پر چلنے لگا تھا۔ آپ نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اس سے چھیننے لگے، بچے کو تکلیف پہنچی اور بچہ رونے لگا۔
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم سے زیادہ بچے کا مستحق ہوں ۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ معاملہ پیش ہوا تو آپ نے ماں کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا: اس کی مہک، اس کی گود اور اس کا بستر بچے کے لیے تم سے بہتر ہے، یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے اور پھر جس کو چاہے اختیار کرے۔[2]
اور ایک روایت میں ہے، فرمایا: یہ ماں بچے کے حق میں زیادہ شفیق و مہربان اور رحم کرنے والی ہے۔ وہ بچے کی زیادہ حقدار ہے جب تک شادی نہ کر لے۔[3]
خلافت صدیقی سے متعلق سیّدنا علی وزبیر رضی اللہ عنہما کا مؤقف
علی بن ابی طالب اور زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما سے متعلق متعدد روایات بیان کی گئی ہیں کہ انھوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کرنے میں تاخیر کی لیکن یہ تمام کی تمام روایات صحیح نہیں ہیں ، ان میں صرف عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت صحیح ہے کہ علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھ جو لوگ فاطمہ کے گھر میں تھے بیعت کرنے میں پیچھے رہے۔[4]
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور دیگر مہاجرین کے بیعت میں تاخیر کا بنیادی سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مشغولیت رہی اور سالم بن عبید رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ چیز بالکل واضح ہے، چنانچہ فرماتے ہیں : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اہل بیت کو، جن میں پیش پیش علی رضی اللہ عنہ تھے، فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک تمھارے پاس ہے، تم اس کے ذمہ دار ہو، پھر انھیں غسل دینے کا حکم فرمایا۔[5]
علی بن ابی طالب اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : جب ابوبکر رضی اللہ عنہ (بیعت عام کے لیے) منبر پر تشریف لائے تو دیکھا لوگوں میں زبیر رضی اللہ عنہ نظر نہیں آرہے ہیں ، ان کو بلوایا، وہ حاضر ہوئے، آپ نے ان سے کہا:
’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری اور پھوپھی زاد بھائی! کیا مسلمانوں کی جمعیت کو توڑنے کا ارادہ ہے؟‘‘
عرض کیا: خلیفہ رسول! ایسی کوئی بات نہیں ۔
[1] وادی محسر مکہ اور عرفہ کے درمیان واقع ہے۔ معجم البلدان: ۵/۶۲۔
[2] مصنف عبدالرزاق: ۷/۵۴، ۱۲۶۰۱۔
[3] مصنف عبدالرزاق: ۷/۵۴، ۱۲۶۰۰۔
[4] صحیح التوثیق فی سیرۃ وحیاۃ الصدیق: ۹۸۔
[5] صحیح التوثیق فی سیرۃ وحیاۃ الصدیق: ۹۸۔