کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 88
۲۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : اس کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے داخل تھے۔ ۳۔ اجماع: اہل علم وفتویٰ کے مشورہ سے۔ ۴۔ اجتہاد: اس کا سہارا اس وقت لیا جاتا تھا جب کتاب، سنت یا اجماع میں اس کا حکم نہ مل سکے۔[1] عہد صدیقی میں ہونے والے چند فیصلے ۱۔ والد کا نفقہ اولاد کے ذمہ: قیس بن ابی حازم سے روایت ہے، میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا، ایک شخص نے عرض کیا: اے خلیفہ رسول! یہ میرا پورا مال لینا چاہتے ہیں اور ان کو اس کی ضرورت ہے۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم اس کے مال میں سے ضرورت بھر کا لے لو۔ اس شخص نے کہا: اے خلیفہ رسول! کاے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا ہے: ’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ جسے پسند کرے تم بھی پسند کرو۔ دوسروں نے منذر بن زیاد سے روایت کی ہے اور اس میں ہے کہ اس سے مقصود نفقہ ہے۔[2] ۲۔ کوڑے لگانے کا حکم: امام مالک نافع سے روایت کرتے ہیں کہ صفیہ بنت عبید نے ان کو خبر دی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص حاضر کیا گیا جس نے ایک لونڈی کے ساتھ زنا کر کے اس کو حاملہ کر دیا، پھر خود زنا کا اعتراف کر لیا، وہ شادی شدہ نہ تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا اور اس کو حد کے سو کوڑے لگائے گئے، پھر فدک کی طرف اس کو جلا وطن کر دیا گیا۔[3] اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے لونڈی کو نہ کوڑے لگوائے اور نہ اس کو جلا وطن کیا کیونکہ اس سے جبراً زنا کیا گیا تھا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس لونڈی کی شادی اس شخص سے کر دی۔[4] اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے ایک خاتون کے ساتھ زنا کیا، پھر اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے تو آپ نے فرمایا: اس سے افضل کوئی توبہ نہیں کہ اس سے شادی کر لے اور دونوں زنا سے نکل کر نکاح میں آجائیں ۔[5]
[1] وقائع ندوۃ النظم الاسلامیۃ: ۱/۳۹۰۔ [2] السنن الکبری: ۷/۴۸۱، بحوالہ تاریخ القضاء للزحیلی: ۱۳۶۔ البانی رحمہ اللہ نے اس کو بے حد ضعیف قرار دیا ہے، بعید نہیں کہ موضوع ہو۔ الارواء: ۳/۳۲۹۔ [3] الموطا: الحدود ۸۴۸۔ [4] مصنَّف عبدالرزاق: ۱۲۷۹۶۔ [5] مصنف عبدالرزاق: ۱۲۷۹۶، اس میں ایک راوی مجہول ہے۔