کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 85
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جہاد کی تربیت اپنے قائد عظیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست حاصل کی تھی۔ توحید و شرک، ایمان و کفر ، ہدایت و ضلالت ، خیر و شر کے درمیان معرکہ آرائی کے میدان میں تربیت حاصل کی، اس سے قبل غزوات میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مؤقف کو ہم بیان کر چکے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((اذا تبایعتم بالعینۃ واخذتم أذناب البقر ورضیتم بالزَّرع وترکتم الجہاد سلط اللّٰه علیکم ذُ لًّا لا ینزعہ حتی ترجعوا الی دینکم۔))[1]
’’جب تم عینہ کے طریقہ پر بیع وشراء کرنے لگو، گائے کی دم تھام لو، کھیتی باڑی میں مست ہو جاؤ اور جہاد کو چھوڑ بیٹھو تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت کو مسلط کر دے گا اور اس وقت تک اسے دور نہ کرے گا جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ۔‘‘
۵۔ فواحش کے خلاف اعلان جنگ:
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔‘‘[2]
سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ یہاں امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد دلا رہے ہیں :
((لم تظھر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یُعلنوا بہا الا فشا فیہم الطاعون والأوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافہم الذین مضوا……۔))[3]
’’جب بھی کسی قوم میں بدکاری عام ہو جائے تو اس قوم میں طاعون اور دوسری ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں پائی گئی تھیں۔‘‘
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اقوام وممالک کے عروج وزوال میں سنن الٰہی کا استیعاب کر رکھا تھا، وہ جانتے تھے کہ ممالک و اقوام فواحش ومنکرات اور عیاشی وفساد کی وجہ سے زوال پذیر ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ﴾ (الاسراء: ۱۶)
’’اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوش حال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب) کی بات ثابت ہو جاتی ہے،
[1] سنن ابوداود: ۳۴۶۲، امام البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے، بیع عینہ جس سے اس حدیث میں روکا گیا ہے اس کی شکل یہ ہے کہ آپ کسی سے اپنا کوئی سامان ادھار بیچ دیں اور پھر اس سے وہ سامان نقداً کم قیمت میں خرید لیں چونکہ یہ سود کھانے کی حیلہ سازی ہے اس لیے اس سے روکا گیا ہے۔ (مترجم)
[2] البدایۃ والنہایۃ: ۶/۳۰۵۔
[3] ابن ماجہ: ۴۰۹۱، الصحیحۃ للالبانی:۱۰۶۔