کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 84
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ! وہ بدلہ نہیں لے سکتا، آپ اس کو سنت نہ بنائیں ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قیامت کے دن مجھے اللہ سے کون بچائے گا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ اس کو خوش کر دیجیے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو حکم فرمایا: اس کو ایک اونٹنی کجاوہ کے ساتھ، ایک چادر اور پانچ دینار دے دو۔ یہ سب اس کو دے کر خوش کیا۔[1] اصول مساوات جسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امت سے اپنے خطاب میں ثابت کیا تھا یہ اسلام کے عام اصول ومبادی میں سے ہے جو اسلامی معاشرہ کی تشکیل و بنا میں ممد و معاون ہیں اور اس سلسلہ میں اسلام نے عصر حاضر کے دیگر قوانین وتشریعات سے سبقت کی ہے۔ ۳۔ سچائی حاکم ومحکوم کے درمیان تعامل کی اساس وبنیاد ہے: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔‘‘[2] سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امت کی قیادت کے لیے اپنے بنیادی اصول کا اعلان فرمایا کہ سچائی حاکم و امت کے درمیان تعامل کی اساس ہے، اس حکیمانہ سیاسی اصول کا امت کی قوت میں بڑا اہم اثر ہوتا ہے۔ اس سے حاکم و عوام کے مابین اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ یہ سیاسی خصلت اسلام کی دعوت صدق سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ﴾ (التوبۃ: ۱۱۹) ’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقین کے ساتھ رہو۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ثلاثۃ لا یکلمہم اللّٰه یوم القیامۃ ولا یزکیہم ولا ینظر الیہم ولہم عذاب الیم: شیخ زان وملک کذاب وعائل متکبر۔))[3] ’’تین طرح کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا، نہ ان کو پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر اٹھائے گا: بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ، متکبر فقیر۔‘‘ ۴۔ جہاد پر قائم رہنے کا اعلان اور امت کو اس کے لیے تیار کرنا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل وخوار کر دیتا ہے۔‘‘[4]
[1] تاریخ الدعوۃ الی الاسلام فی عہد الخلفاء: ۴۱۱۔ [2] البدایۃ والنہایۃ: ۶/۳۰۵۔ [3] مسلم: الایمان ۱۷۲۔ [4] البدایۃ والنہایۃ: ۶/۳۰۵۔