کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 82
امت کے عزوشان کے لیے یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اور فواحش سے اجتناب پر زور دیا کیونکہ معاشرہ کو گراوٹ وفساد سے بچانے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔[1] ۱۔ خلافت صدیقی میں مصادر تشریع: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تک میں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں تم بھی میری اطاعت کرو اور جب میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں ۔[2] (الف) قرآن کریم: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴾ (النساء: ۱۰۵) ’’یقینا ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو۔‘‘ تشریغ کا یہ پہلا مصدر ہے جو زندگی سے متعلق تمام احکام شرعیہ پر مشتمل ہے۔ اسی طرح زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق اساسی مبادی واحکام پر مشتمل ہے۔ نیز قرآن پاک نے مسلمانوں کے لیے حکومت وسلطنت کے اصول ومبادی بھی بیان کیے ہیں جن کی ان کو ضرورت پڑنے والی تھی۔ (ب) حدیث پاک: حدیث پاک دوسرا مصدر ہے جس سے اسلامی دستور اپنے اصول حاصل کرتا ہے، اور حدیث کی روشنی میں ہی احکام قرآن کی تنفیذی اور تطبیقی تفصیلات کی معرفت ممکن ہے۔[3] خلافت صدیقی شریعت مطہرہ کے تابع تھی اور ہر تشریع وقانون پر شریعت اسلامیہ کو بالا دستی حاصل تھی اور خلافت صدیقی نے اسلامی حکومت کے شرعی حکومت ہونے کی واضح اور روشن تصویر پیش کی ہے، جو اپنے تمام اداروں اور شعبوں میں شرعی قوانین کی پابند ہوتی ہے اور اس حکومت میں حاکم شرعی قوانین کا پابند ہوتا ہے، ان قوانین سے انحراف یا آگے پیچھے ہٹنے کی ذرا بھی گنجائش اس کے لیے نہیں ہوتی۔[4] خلافت صدیقی اور صحابہ کے معاشرہ میں شریعت کو سب پر بالا دستی حاصل تھی، حاکم ومحکوم سب اس کے تابع تھے، اسی لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امت سے جس اطاعت کا مطالبہ کیا اسے اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مقید کیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
[1] التاریخ الاسلامی: ۹/۲۸۔ [2] البدایۃ والنہایۃ: ۶/۳۰۶۔ [3] فقہ التمکین فی القرآن الکریم للصَّلابی: ۴۳۲۔ [4] نظام الحکم فی الاسلام: ۲۲۷۔