کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 81
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تائید میں اہم کردار ادا کیا۔ چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب سقیفہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ہو گئی تو دوسرے دن ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف لائے، آپ سے پہلے عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثنا بیان کی، پھر فرمایا: ’’لوگو! میں نے کل ایک بات آپ لوگوں سے کہی تھی وہ کتاب اللہ میں مجھے نہیں ملی اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عہد مجھ کو دیا تھا لیکن میرا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے امور کی تدبیر کرتے رہیں گے اور ہم میں سب سے آخر میں رخصت ہوں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمھارے اندر اپنی کتاب باقی رکھی ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت ملی، اگر تم اس کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو اللہ تمھیں بھی اس کی ہدایت دے گا جس کی ہدایت اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں ایسے شخص پر جمع کر دیا ہے جو تم میں سب سے افضل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی، ثانی اثنین اور یار غار ہیں ۔ اٹھو اور ان سے بیعت کرو۔‘‘ پھر لوگوں نے سقیفہ کی بیعت کے بعد عام بیعت کی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا: ’’لوگو! میں تم پر والی مقرر کیا گیا ہوں لیکن تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں ۔ اگر میں اچھا کام کروں تو میرے ساتھ تعاون کرو اور اگر کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے، جھوٹ خیانت ہے۔ تمھارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے جب تک میں دوسروں سے اس کا حق نہ دلا دوں ، اور تمھارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق نہ حاصل کر لوں ۔ ان شاء اللہ! یاد رکھو! جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے اللہ اس کو ذلیل وخوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے اگر میں اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں ، اللہ تم سب پر رحم فرمائے۔ نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘[1] اس دن عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: منبر پر تشریف لائیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ برابر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ آپ منبر پر تشریف لائے اور لوگوں نے آپ سے بیعت کی۔[2] یہ خطبہ اپنے اختصار وایجاز کے باوجود اہم ترین اسلامی خطبوں میں سے ہے۔ اس کے اندر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حاکم ورعایا کے مابین تعامل کے سلسلہ میں عدل ورحمت کے قواعد مقرر کیے۔ اس بات پر ترکیز کی کہ اولی الامر کی اطاعت اللہ و رسول کی اطاعت پر مترتب ہوتی ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کی طرف توجہ دلائی کیونکہ
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۶/۳۰۵۔۳۰۶۔ [2] البخاری: الاحکام ۷۲۱۹۔