کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 80
((فاقتدوا بالذین من بعدی)) یعنی میرے بعد ان دونوں خلفاء کی اقتدا کرنا جو میرے قائم مقام ہوں گے اور وہ دونوں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حسن سیرت اور صدق باطن کی بنا پر ان کی اقتدا کا حکم فرمایا اور اس حدیث میں امر خلافت کے سلسلہ میں واضح اشارہ ہے۔[1]
ان کے علاوہ بھی دیگر احادیث ہیں جو دلالت کرتی ہیں ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، ص: ۱۹۴، از ڈاکٹر محمد الصلابی]
۶۔ خلافت صدیقی پر اجماع:
اہل السنۃ والجماعۃ کے سلف وخلف کا اس بات پر اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے سب سے زیادہ حق دار ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ اہل علم کے بعض اقوال یہ ہیں :
٭ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مہاجرین وانصار نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع کیا اور وہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ کہہ کر پکارتے تھے، کہتے ((یا خلیفۃ رسول اللہ)) آپ کے بعد کسی کو یہ نام نہ دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تیس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، سب نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ رسول قرار دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کو خلیفہ مان کر خوش رہے۔[2]
٭ امام عبدالملک الجوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ثابت ہے۔ ان سب نے آپ کی اطاعت وفرمانبرداری پر اتفاق کیا اور روافض آپ کی بیعت سے متعلق علی رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں جس شدید مخالفت اور بدخلقی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں یہ سب صریح جھوٹ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع میں موجود نہ تھے، کیونکہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حزن وغم میں نڈھال ہو کر تنہائی اختیار کر لی تھی لیکن پھر سقیفہ بنی ساعدہ میں لوگوں نے جو قرار داد پاس کی اس کو اختیار کیا اور لوگوں کے مجمع عام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔[3]
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، ص: ۱۹۹، از ڈاکٹر محمد الصلابی]
(۲)
عام بیعت اور داخلی امور کا انتظام وانصرام
ا:…عام بیعت:
جب سقیفہ بنو ساعدہ کے اجتماع میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتخاب منصب خلافت کے لیے ہو گیا اور بیعت خاص ہو گئی تو دوسرے دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد نبوی میں عام بیعت کے لیے جمع ہوئے۔[4] اس وقت عمر رضی اللہ عنہ نے
[1] تحفۃ الاحوذی بشرح الترمذی: ۱۰/۱۴۷۔
[2] تاریخ بغداد: ۱۰/۱۳۰،۱۳۱۔
[3] کتاب الارشاد: ۳۶۲۔
[4] عصر الخلفاء الراشدین: د/ فتحیۃ النبراوی: ۳۰۔