کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 78
عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴾ (الفاتحۃ: ۶۔۷) ’’ہمیں سیدھی اور سچی راہ دکھا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا، ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت پر دلیل ہے کیونکہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ یہاں ’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔‘‘ سے قبل ’’اِہْدِنَا‘‘ مقدر ہے۔ یعنی اصل میں ’’اِہْدِنَا صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔‘‘ ’’ہمیں منعم علیہ بندوں کا راستہ دکھا‘‘ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں ان منعم علیہ بندوں کی تفصیل ذکر فرمائی ہے: ﴿ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ الآیۃ﴾ ’’وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا جیسے انبیاء اور صدیقین……‘‘ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صدیقین کے رئیس وقائد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ، تو آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم اس ہدایت کو طلب کریں جن پر ابوبکر صدیق اور دیگر صدیقین قائم تھے۔ اگر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گمراہ ہوتے تو ان کی اقتدا جائز نہ ہوتی۔ لہٰذا ہم نے جو بیان کیا ہے وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت پر دلیل ہے۔[1] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾ (التوبۃ: ۴۰) ’’اگر تم ان نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جب کہ انھیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ’’ساتھی‘‘ سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں۔ اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند وعزیز اللہ کا کلمہ ہی ہے اور اللہ غالب ہے کمال حکمت والا ہے۔‘‘ مزید ارشاد الٰہی ہے: ﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴾ (التوبۃ: ۱۰۰)
[1] تفسیر الرازی: ۱/۲۶۰۔