کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 770
یہ روایت موضوع ہے، اس میں حسین اشقر متکلم فیہ راوی ہے۔ امام بحاری نے اس کے بارے میں فرمایا: فیہ نظر(دیکھئے: التاریخ الکبیر :۲/۲۸۶۲) اور التاریخ الصغیر (۲/۳۹۱) میں لکھا کہ ’’عندہ مناکیر‘‘ (دیکھئے: السلسلۃ الضعیفۃ/ ألبانی حدیث نمبر :۳۹۱۳) ٭ علی خیر البشر ہیں ، جو اس کا انکار کرے اس نے کفر کیا۔ یہ روایت موضوع ہے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ابن عدی نے اسے کئی سندوں سے نقل کیا ہے، لیکن سب کی سب ضعیف ہیں ۔ (دیکھئے: تسدید القوس :۳/۸۹) ذہبی نے کہا یہ حدیث منکر ہے اورکہا کہ یہ واضح طور پر باطل ہے۔ (دیکھئے: میزان الاعتدال (۱/۵۲۱) اور الموضوعات / ابن الجوزی :۱/۳۴۸) ٭ میں جانتی ہوں کہ علی آپ کے نزدیک میرے والد سے دو یا تین گنا زیادہ محبوب ہیں ۔ شیخ البانی نے اسے ضعیف ٹھہرایا ہے۔ (دیکھئے: ضعیف أبی داؤد ص :۴۹۱) ٭ میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے کہ جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہا وہ ڈوب گیا۔ (دیکھئے: المعجم الکبیر/ طبرانی (۳/۳۷) اور مجمع الزوائد /الہیثمی ۹/۱۶۸) ہیثمی نے فرمایا: اس کی سند میں عبداللہ بن داہر اور حسن بن ابوجعفر ہیں جو کہ متروک ہیں ۔ ٭ جسے میری طرح جینا اور میری طرح مرنا اور اس جنت الخلد میں رہنا پسند ہو جس کا مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا ہے اور جس کے پودوں کو اس نے اپنے ہاتھوں سے لگایا ہے، اسے چاہیے کہ علی بن ابی طالب سے محبت کرے۔ حاکم نے (۳/۱۲۸) میں اس کی تصحیح کی ہے اورامام ذہبی نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں قاسم راوی متروک ہے اور اس کا شیخ یحییٰ بن العلی الاسلمی ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر تقریب ترجمہ نمبر: (۷۶۷۷) میں فرماتے ہیں : وہ شیعہ ہے ضعیف ہے، لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے اسلمی کی جگہ اس کی نسبت محاربی لکھا، جس کا عبدالحسین نے مراجعات میں نہایت غلط استغلال کیا۔ ٭ جو کچھ اللہ نے میرے سینہ میں ڈالا میں نے اسے علی کے سینہ میں انڈیل دیا۔ یہ حدیث موضوع ہے۔ (دیکھئے: الموضوعات (۱/۱۳۱) اسمی المطالب اثر نمبر: ۱۲۶۲) ٭ جو تم سے محبت کرنے والا ہے وہ مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور میرا محب اللہ کا محب ہے اور جو تم سے بغض رکھنے والا ہے وہ مجھ سے بغض رکھنے والا ہے اور مجھ سے بغض رکھنے والا اللہ سے بغض رکھتا ہے۔ حافظ فرماتے ہیں : اسے ابن عدی نے روایت کیا ہے اور یہ باطل ہے۔ (دیکھئے: لسان المیزان ۲/۱۰۹)