کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 761
تمھیں حکم دیا ہے، بھلائیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے سے باز نہ آؤ، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ تم میں برے لوگ تمھارے حاکم بن جائیں اور پھر تم ان سے خلاصی کی دعائیں مانگو اور وہ قبول نہ کی جائیں ۔ ایک دوسرے سے میل محبت اور انفاق و مدد کو لازم کرلو، قطع تعلقی، اختلاف و تفرقہ بازی سے اپنے آپ کو بچاؤ، نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور سرکشی پر کسی کے معاون نہ بنو، اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے، اللہ تم اہل بیت کو محفوظ رکھے اور تم میں تمھارے نبی (کی سنت) کو محفوظ رکھے اب میں تمھیں اللہ کے حوالے کرتا ہوں ، السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ۔پھر آپ کی زبان سے آخر میں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ کے الفاظ نکلے اور رمضان ۴۰ھ میں آپ اس درافانی سے کوچ کرگئے۔[1] ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ ۲۱رمضان کی صبح قتل کیے گئے۔[2] پس یہ روایت اس دن پر محمول ہے جس میں آپ نے اس دنیا سے کوچ کیا، اس لیے کہ اس بدبخت کی مار کے بعد آپ صرف تین دن باحیات رہے۔[3] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اپنے قاتل کا مثلہ کرنے سے منع فرماتے ہیں : چنانچہ آپ نے اپنے قاتل کے بارے میں فرمایا: ’’اس کو قید میں رکھو، اگر میں مرجاؤں تو اسے قتل کردینا اور اگر زندہ بچوں گا تو زخموں کے بدلے قصاص ہے۔‘‘[4] ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اسے کھانا پانی دیتے رہو اور قید کرنے میں نرمی برتو، اگر میں شفایاب ہوگیا تو اپنے خون کا خود ذمہ دار ہوں ، اگر چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور چاہوں گا تو بدلہ لوں گا۔‘‘[5] ایک دوسری روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ اگر میں مرگیا تو میرے قتل کی طرح اسے قتل کردینا اور حد سے تجاوز نہ کرنا، اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔[6] آپ نے حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے قاتل کا مثلہ کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے بنو عبدالمطلب! میں تمھیں مسلمانوں کے خون میں ڈوبا ہوا نہ پاؤں ، کہ تم انھیں یہ کہہ کر قتل کرتے رہو، امیر المومنین قتل کردیے گئے، امیر المومنین قتل کردیے گئے، خبردار ہرگز ہرگز کوئی دوسرا قتل نہ کیا جائے اور اے حسن تم سنو! اگر میں اس کی مار سے مرگیا تو ایک وار کے بدلے اس پر ایک وار کرنا اور قاتل کا مثلہ نہ کرنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ((إِیَّاکُمْ وَ الْمُثْلَۃَ وَ لَوْ أَ نَّہَا بِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔)) [7]
[1] تاریخ الطبری (۶؍۶۴)۔ [2] التاریخ الکبیر ؍البخاری (۱؍۹۹) بسند صحیح۔ [3] خلافۃ علی بن أبی طالب ؍ عبدالحمید ص (۴۳۰)۔ [4] فضائل الصحابۃ (۲؍۵۶۰) بسند حسن۔ [5] المحن ؍أبوالعرب ص (۹۴) خلافۃ علی بن أبی طالب ص (۴۳۹)۔ [6] الطبقات ؍ ابن سعد (۳؍۳۵)۔ [7] تاریخ الطبری (۶؍۶۳)۔