کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 76
اللہ کی حلال وحرام کردہ اشیاء کا ذکر ہے۔ اللہ کی قسم! ہمیں اس کی پرو ا نہیں کہ ہم پر کون حملہ آور ہو رہا ہے، کیونکہ ہماری تلواریں ابھی کھینچی ہوئی ہیں ، ابھی ہم نے انھیں رکھا نہیں ہے۔ جو ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہوگا اس سے ہم اسی طرح جہاد کریں گے جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کر رہے تھے۔ لہٰذا کوئی ہمارے خلاف جرأت نہ کرے ورنہ اس کا وبال اس کے سر ہوگا۔[1]
۳۔ سقیفہ بنی ساعدہ:
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا علم ہو گیا تو انصار صحابہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے، یہ دو شنبہ۱۲ ربیع الاوّل ۱۱ہجری تھا، جس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ اس اجتماع میں مسئلہ خلافت پر گفتگو ہوئی۔[2]
انصار، قبیلہ خزرج کے رہنما سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گرد جمع ہو گئے، انصار کے اس اجتماع کی خبر مہاجرین کو پہنچی، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ خلافت پر غور وخوض کرنے کے لیے جمع تھے کہ کون اس منصب کو سنبھالے۔[3]
مہاجرین نے آپس میں کہا: آؤ اپنے انصار برادران کے پاس چلتے ہیں اس حق میں ان کا بھی حصہ ہے۔[4]
عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم انصار کی طرف چل پڑے، جب ہم ان سے قریب پہنچے، ان میں سے دو صالح آدمیوں (عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی) سے ملاقات ہوئی۔ ان دونوں نے انصار کے عزائم سے ان کو مطلع کیا، پھر سوال کیا:
’’آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘
ہم نے کہا: ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں ۔
ان دونوں نے کہا: ان کے پاس جانا ضروری نہیں ۔ آپ لوگ خود معاملہ طے کر لیں ۔
میں نے کہا: واللہ! ہم ضرور ان کے پاس جائیں گے۔
ہم چلے یہاں تک کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں ان کے پاس پہنچے۔ دیکھا ایک شخص کمبل میں لپٹا ہوا ہے۔
میں نے کہا: یہ کون ہیں ؟
لوگوں نے جواب دیا: یہ سعد بن عبادہ ہیں ۔
میں نے کہا: ان کو کیا ہو گیا ہے؟
لوگوں نے بتایا: ان کو بخار آرہا ہے۔
[1] دلائل النبوۃ للبیہقی: ۷/۲۱۸۔
[2] التاریخ الاسلامی: ۹/۲۱۔
[3] عصر الخلافۃ الراشدۃ للعمری : ۴۰۔
[4] عصر الخلافۃ الراشدۃ للعمری : ۴۰۔