کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 759
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو ان حالات و حوادث سے آگاہ کردیا تھا جو انھیں پیش آنے والے تھے اور علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشین گوئیوں پر آمنا و صدقنا بھی کہا تھا، گاہے بگاہے لوگوں سے اس کا ذکر بھی کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ عراق میں اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: جسے ابوالاسود الدؤلی یوں بیان کرتے ہیں : میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں سفر کے لیے سواری کے رکاب میں اپنے قدم ڈال چکا تھا کہ اتنے میں عبداللہ بن سلام میرے پاس آئے اور مجھ سے کہنے لگے کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: عراق کا، وہ کہنے لگے: کیا آپ وہاں اس لیے جارہے ہیں تاکہ تلوار کی دو طرفہ دھار آپ کو کاٹ ڈالے۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم!تم سے پہلے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ابوالاسود کا بیان ہے کہ میں یہ سن کر آپ پر حیرت کرنے لگا اور دل ہی دل میں کہا: یہ تو انتہائی جنگجو آدمی ہیں اپنے بارے میں ایسی باتیں بتا رہے ہیں۔[1]
حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی وصیت:
اس کے بعد آپ نے اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو بلایا اور انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں تمھیں چندباتوں کی وصیت کرتا ہوں ، اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا، دنیا سے کبھی دل نہ لگانا اگرچہ وہ تمھارے پیچھے لگے، کسی ایسی چیز کے لیے غم نہ کرنا جو تمھیں نہ ملنے والی ہو، حق با ت کہنا، یتیم پر رحم کرنا، بیکس کی مدد کرنا، اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرنا، ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا اور مظلوم کی مدد کرنا۔ اللہ کی کتاب پر عمل کرنا، اس کے احکام کی تعمیل کے سلسلہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا، اس کے بعد اپنے تیسرے بیٹے محمد بن الحنفیہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں نے تمھارے دونوں بھائیوں کو جو نصیحتیں کی ہیں کیا تم نے بھی ان کو اچھی طرح گوش گزار کرلیا؟[2] انھوں نے کہا: جی ہاں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم اپنے بڑے بھائیوں کی توقیر و تعظیم کرنا، کیونکہ ان کا تم پر بہت بڑا حق ہے، جو کچھ وہ کہیں اس پر عمل کرنا اور ان کے کسی حکم کی بجاآوری میں دیر نہ کرنا۔ اس کے بعد پھر حسن و حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: میں اس (محمد بن الحنفیہ) کے بارے میں تم دونوں کو خیرخواہی کرنے کی نصیحت کرتا ہوں ، کیونکہ وہ بھی تمھارے باپ کی اولاد ہے اور تم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کا باپ اس سے کتنی محبت کرتا تھا، پھر حسن رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے میرے بیٹے میں تمھیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، اوریہ کہ نماز کے وقت پر نماز پڑھنا، زکوٰۃ کے وقت پر زکوٰۃ دینا اور اچھی طرح وضو کرنا، کیونکہ بغیر پاکی (وضو) کے نماز صحیح نہیں اور زکوٰۃ نہ دینے والے کی نماز قبول نہیں ہوتی، نیز وصیت کرتا ہوں کہ دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحمی کرنا، بردباری سے کام لینا، دین میں بصیرت حاصل کرنا، کسی معاملہ کی اچھی طرح تحقیق کرلینا، قرآن کو لازم پکڑنا، پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، فواحش اور بدکاریوں سے بچتے رہنا۔[3]
[1] تاریخ الإسلام ؍ الذہبی ص (۶۴۸)۔
[2] تاریخ الطبری (۶؍۶۳)۔
[3] تاریخ الطبری (۶؍۶۳)۔