کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 758
اتفاق ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ عراق پر حاکم رہیں اور معاویہ رضی اللہ عنہ شام پر، ان میں سے کوئی کسی کے کام میں فوج، اچانک حملہ یا جنگ کے ذریعے سے ہرگز دخل اندازی نہ کرے گا۔‘‘[1] طلب شہادت کی دعا: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت تو کرلی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ مصالحت زیادہ دنوں تک باقی نہ رہی کیونکہ جس سال علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اسی سال معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز اور یمن وغیرہ میں بسر بن ارطاۃ کو فوجی کارروائی کے لیے بھیجا۔[2] بہرحال جب علی رضی اللہ عنہ اپنی فوج کو اپنے مقصد تک لے جانے میں کامیا ب نہ ہوسکے اور اس کی پستی و خواری کو دیکھا تو اپنی زندگی پر موت کو ترجیح دی، اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور جلد از جلد اس دنیا سے اٹھائے جانے کی دعا کرنے لگے۔ چنانچہ آپ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے اللہ میں نے انھیں مایوس کیا اور انھوں نے مجھے مایوس کیا، میں نے انھیں اکتایا اور انھوں نے مجھے اکتایا، پس تو ان سے مجھے نجات دے اور مجھ سے ان کو نجات دے، پھر اپنی داڑھی پر اپنا ہاتھ رکھا اورکہنے لگے تمھارے سب سے بدبخت آدمی (یعنی قاتل) کے لیے کوئی چیز اس بات سے مانع نہیں ہے کہ وہ اسے (داڑھی کو) خون میں رنگ دے۔[3] آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں کافی الحاح و زاری سے دعائیں کیں ، چنانچہ جندب کا بیان ہے کہ لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کے پاس اس قدر اژدحام کردیاکہ آپ کے قدموں کو روند ڈالا، تو آپ نے کہا: اے اللہ! میں نے انھیں اکتا دیا ہے اور انھوں نے مجھے اکتا دیا، میں نے ان سے نفرت کی اورانھوں نے مجھ سے نفرت کی لہٰذا تو مجھ کو ان سے اور ان کو مجھ سے نجات دے دے۔[4] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو اپنی شہادت کا علم تھا: بعض احادیث نبویہ کہ جن کا شمار دلائل نبوت میں ہوتا ہے ان سے معلوم ہوتاہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پہاڑ پر کھڑے تھے، آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر ( رضی اللہ عنہم ) بھی تھے، چٹان ہلنے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِہْدَاْ فَمَا عَلَیْکَ إِلَّا نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیْقٌ أَوْ شَہِیْدٌ۔)) [5] ’’تھم جا اے حرا، تیرے اوپر کوئی نہیں ہے مگر نبی یا صدیق یا شہید۔‘‘
[1] تاریخ الطبری (۶؍۵۶)۔ [2] التاریخ الصغیر ؍ البخاری (۱؍۴۱) خلافۃ علی بن أبی طالب ص (۴۳۱)۔ [3] مصنف عبدالرزاق (۱۰؍۱۵۴) اس کی سند صحیح ہے۔ الطبقات (۳؍۴) اس کی سند صحیح ہے۔ [4] الآحاد والمثانی ؍ابن أبی عاصم (۱؍۳۷) اس کی سند حسن ہے۔ خلافۃ علی (۴۳۲)۔ [5] صحیح مسلم حدیث نمبر (۶۲۴۷)۔