کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 757
علمائے اسلام نہج البلاغۃ میں مذکور خطباتِ علی کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ یہ سب شریف الرضی کے خود ساختہ خطبے ہیں ۔[1] لہٰذا تاریخی مصدر کے اعتبار سے ان سے استشہاد کرتے ہوئے ہمیں کافی باریک بینی اور تنقیدی منہج سے کام لینا ضروری ہے۔
مزید برآں ایک دوسرے اعتبار سے بھی علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لوگوں کو جنگی پیش قدمی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، وہ یہ کہ آپ اپنے ساتھیوں کو اپنے فضائل و مناقب اور اسلام میں اپنے اونچے مقام کو یاد دلانے لگے، بہت سارے لوگ جنھوں نے اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، بتاتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کھلے میدان میں لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا حوالہ دیتے ہوئے مدد کے لیے پکارا کہ کون ہے جس نے غدیر خم کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ((الستم تعلمون انی اولیٰ بالمومنین من انفسہم؟)) کیا تمھیں معلوم نہیں کہ میں مومنوں پر ان کی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوں ۔ تو لوگوں نے کہا: ہاں کیوں نہیں ، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ اللہم والِ من والاہ و عاد من عاداہ)) پس میں جس کا دوست ہوں تو علی اس کے دوست ہیں ، اے اللہ جو ان کو دوست بنائے تو اسے عزیز رکھ اور جو ان سے دشمنی کرے تو اس کو دشمن بنالے۔‘‘ یہ حدیث سن کر بارہ آدمی اور ایک روایت کے مطابق سولہ آدمی اٹھ کھڑے ہوئے اور اس پر شہادت دی۔[2]
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ موقف ہمیں عثمان رضی اللہ عنہ کی زندگی کے ان آخری حالات کی یاد تازہ کرتا ہے جب بلوائیوں نے آپ کا محاصرہ کرلیا تھا اورآپ اپنے فضائل ومناقب کی گواہی اپنے درمیان موجود صحابہ سے لے رہے تھے۔گویا آپ یہ کہہ رہے تھے کہ جس آدمی کے ایسے عظیم الشان کارنامے ہوں اور اسلام کے لیے جس کی اس قدر قربانیاں ہوں کیا اس کا یہی بدلہ ہوتا ہے؟
بہرحال ان تمام کاوشوں اورانتھک کوششوں کے باوجود علی رضی اللہ عنہ اپنا ہدف نہیں حاصل کرسکے، یعنی ملک کے داخلی انتشار اور فوج کی عدم رضا مندی اور اس کی باہمی چپقلش و رسہ کشی اور نفس پرستی کی وجہ سے شامیوں سے جنگ نہ لڑ سکے اورمجبوراً ۴۰ھ میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے ساتھ اس بات پر مصالحت کرنے کو راضی ہوگئے کہ عراق میرے زیر اقتدار رہے گا اور شام ان (معاویہ) کے اور دونوں میں سے کوئی بھی کسی دوسرے کے کام میں فوجی کارروائی، اچانک حملہ یا جنگ کے ذریعے سے دخل اندازی نہیں کرے گا۔ طبری رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں :
’’۴۰ھ میں علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جنگ بندی سے متعلق کافی خط و کتابت کے بعد اس بات پر
[1] میزان الاعتدال (۳؍۱۲۴) اس موضوع سے متعلق آپ نے کافی اچھی تنقیدی گفتگو کی ہے۔ نیز خلافۃ علی بن أبی طالب ص (۳۵۵),
[2] فضائل الصحابۃ (۲؍۷۰۵) اس کی سند صحیح ہے۔