کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 755
بغاوت کی، ابن الحضرمی بصرہ پہنچا اور اہل اہواز نے بھی خلافت علی سے رشتہ توڑ لیا، خراج دہندگان زوال خلافت کی جمع کرنے لگے اور فارس میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گورنر سہل بن حنیف کو وہاں سے نکال دیا گیا۔[1]
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا اپنے لشکر کو لڑائی پر ابھارنا اور پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ بندی پر مصالحت کرنا:
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ان مصائب، فوجی سرد مہری اور عوام کی جنگی بے رغبتی کے سامنے جھکے نہیں بلکہ پوری دانائی، دلائل اور فصاحت و بیان کے بلیغانہ اسلوب کے ذریعے سے اپنی فوج کی ہمت افزائی کی۔ اس سلسلے میں جنگی جوش اور قوت غیرت کو بھڑکانے والے جو خطبے مشہور ہیں اور جنھیں ادبی وراثت میں اہم مقام حاصل ہیں ، انھیں آپ نے خالی الذہن ہوکر تصورات کی دنیا میں جاکر نہیں کہا بلکہ وہ ایسے تلخ حقائق ہیں جن کا جام آپ نے خود نوش کیا تھا، وہ خطبے ان دردناک حالات کے ترجمان ہیں جن کی فضاؤں میں آپ نے سانسیں لی تھیں ۔ چنانچہ جب آپ کے اطراف اور سرحدی ریاستوں پر شامی فوجوں کے حملے ہوئے تو آپ نے یہ خطبہ دیا۔ فرمایا: ’’حمد و صلاۃ کے بعد! جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ جس شخص نے جان بوجھ کر اس سے روگردانی کی اللہ تعالیٰ اسے ذلت کا لباس پہنائے گا، مصائب کاپہاڑ اس کے سر پرٹوٹ پڑے گا، ذلت و خواری مقدر ہوجائے گی، اس کے دل پر پردہ پڑ جائے گا اور اسے اپنے حق سے محروم کردیا جائے گا اور وہ عدل و انصاف سے محروم کردیا جائے گا۔
میں تمھیں شامیوں سے لڑنے کے لیے شب و روز بلاتا رہا، میں تم سے بار بار کہتا رہا کہ قبل اس کے کہ یہ لوگ تم پر حملہ کریں تم ان پر چڑھائی کردو، کیونکہ جس قوم پر حملہ کیا جاتا ہے اور جس کے علاقہ میں اس کے دشمنوں کے پاؤں پہنچ جاتے ہیں ، وہ ذلیل اور رسوا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ لیکن تم نے میری بات پر مطلق کان نہ دھرا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے، میری نصیحت تمھیں گراں گزرتی تھی اور میری باتوں کو تم ہنسی میں اڑا دیتے تھے، اس لاپروائی کا جو کچھ نتیجہ ہوا وہ اب تمھارے سامنے ہے۔ تمھارے علاقہ پر دشمن نے چڑھائی کردی، دیکھو غامد کے بھائی (سفیان بن عوف غامدی) کے گھوڑے انباء تک پہنچ چکے، مجھے خبر ملی ہے کہ ان لوگوں نے مسلمان اور ذمی عورتوں کے کنگن، پازیب اور بالیاں تک اتار لیں ، انھوں نے قتل و غارت گری کا بازار خوب گرم کیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر واپس گئے، لیکن ان کے کسی آدمی کو خراش تک نہ آئی، اس کے بعد اگر کوئی مسلمان افسوس اور رنج کے مارے مرجاتا ہے تو میرے نزدیک وہ ملامت کے قابل نہیں ہے، بلکہ ایسی موت فاسد ہے،کیا ہی تعجب ہے کہ ایک قوم باطل پر ہونے کے باوجود اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے پوری جد و جہد کرتی ہے اور تم حق پر ہونے کے باوجود بزدلی دکھاتے ہو، افسوس کہ تم دشمنوں کا نشانہ بن گئے، جس پر وہ جی بھر کر تیر چلاتا ہے، تم مال غنیمت بن گئے، جس کو وہ جی
[1] تاریخ الطبری (۶؍۵۳)۔