کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 753
قاضی ابویعلیٰ فرماتے ہیں : ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی دعوت الی اللہ کا کام وہی شخص کرے جو سمجھتا ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور جانتا ہو کہ میں کس بات سے منع کر رہا ہوں ۔‘‘ [1] یہ چند باتیں تھیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعلق تھیں ۔ ان باتوں سے ناواقفیت اور ان چیزوں کی عدم رعایت دعوت الی اللہ کے راستہ میں تشدد و سختی کے رجحان کا سبب بنتی ہیں۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری ایام اور شہادت جنگ نہروان کے نتیجہ میں : خوارج کے باب میں جنگ نہروان کے حوالے سے یہ بات گزر چکی ہے کہ اس میں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے خوارج سے جنگ کی تھی اور ان سے آپ کا جنگ کرنا اس بات کی قوی دلیل اور واضح حجت رہی کہ اہل شام کے خلاف آپ کی محاذ آرائی یقینا درست تھی اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں آپ حق سے زیادہ قریب تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ((تَمْرُقُ مَارِقَۃٌ عِنْدَ فُرْقَۃِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَقْتُلُہَا أَوْلَی الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ۔)) [2] ’’ایک فرقہ جدا ہو جائے گا جب مسلمانوں میں پھوٹ ہوگی اس کو قتل کرے گا وہ گروہ جو قریب ہوگا دونوں گروہوں میں حق سے۔‘‘ آپ توقع کرتے ہوں گے کہ علی رضی اللہ عنہ کی فوج اہل شام کے خلاف جنگ کرنے میں بہت پُرعزیمت رہی ہوگی، کیونکہ اس حدیث رسول اور عمار بن یاسر کی شہادت وغیرہ کے واضح دلائل سے انھیں اپنی حقانیت پر یقین رہا ہوگا، درحقیقت توقع تو اسی بات کی تھی، لیکن نتیجہ اس کے برخلاف سامنے آیا، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کا یہ منصوبہ تھا کہ خوارج کی جنگ سے فراغت کے بعد شام پر چڑھائی کرنا ہے، کیونکہ شام کو اپنی خلافت میں شامل کرنا اورامت کے اتحاد کو واپس لانا خلافت کا بنیادی ہدف ہے اوریہ ایسا مقصد ہے جسے حاصل کرنے کے لیے کوشش ضروری ہے۔ خوارج سے آپ کی جنگ کا مقصد بھی یہی تھا کہ ملک کے داخلی محاذ کو محفوظ کیا جائے۔ مبادا یہ شرپسند ہماری عدم موجودگی میں دار الخلافہ میں موجود مسلمانوں کے بچوں اور ان کی عورتوں پر حملہ کردیں ، لیکن کیا کیجئے گا کہ ہوائیں تو ہمیشہ کشتیوں کے سمت مخالف میں چلتی ہیں ، آپ حسب منشا شام کی جنگ نہ لڑسکے اور شہید کردیے گئے۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی فوجی قوت کو کمزور کرنے میں اگر ایک طرف خوارج کی بغاوت کافی اثر انداز ہوئی تھی تو دوسری طرف جمل، صفین اورنہروان کے معرکوں سے اہل عراق ایسے اوب چکے تھے کہ اب مزید کسی جنگ کے
[1] الفتاوٰی (۲۸؍۱۳۶، ۱۳۷)۔ [2] صحیح مسلم ۔