کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 752
اس قدر عام ہے کہ جیسے دوسروں سے معاملہ کرنے میں سختی اور شدت ہی اصل مطلوب ہے نہ کہ محبت اور نرمی، بعض نوجوانوں کے اندر تشدد کا یہی رجحان ایک طبعی عادت کی شکل اختیار کرچکا ہے اور اس کا دائرہ باتوں سے نکل کر عملی انجام تک وسیع ہوتا جارہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بے گناہوں کا خون ہو رہا ہے اور آبادیاں تباہ ہو رہی ہیں اور اس کے برے اثرات صرف تشددپسندوں کو نہیں بلکہ پوری امت کو لپیٹے ہوئے ہیں ۔ لہٰذا یہ پہلو قابل غور ہے کہ نوجوانوں میں سختی اور تشدد کا یہ رجحان کیوں اور کہاں سے پیدا ہوا؟ چنانچہ حالات و مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے چند اہم اور بنیادی اسباب کار فرما ہیں جنھیں مختصراً اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ آزمائشیں اور مشکلات: دعوت دین کے لیے پُرجوش نوجوانوں میں تشدد کا رجحان اس لیے بڑھا کہ انھیں اس راستے میں مختلف قسم کی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے بہت تکلیفیں جھیلیں ، تو ردعمل کے طور پر انھوں نے تشدد کا جواب تشدد سے دیا اور پھر یہی چیز ان کی طبیعت ثانیہ بن گئی۔ دعوت و تبلیغ کے اصولوں سے ناواقفیت: دعوت وتبلیغ سے میری مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، یہ ایک اہم ذمہ داری ہے جو پوری امت مسلمہ پر عائد ہوتی ہے، لہٰذا جو شخص اس منصب پر فائز ہو اسے صاحب فقہ و بصیرت ہونا چاہیے، تاکہ وہ آسانی کے ساتھ امت کی مصلحتوں کو بروئے کار لائے اور مفاسد کو روک سکے، نیز اسے چند باتوں کا جاننا اور سمجھنا ضروری ہے، انھیں میں سے ایک بات یہ ہے کہ یہ ذمہ داری کبھی دل، کبھی زبان اور کبھی ہاتھ اور زبان سے ادا کرنا واجب ہے۔ اسی مقام پر بعض لوگ غلطی کرجاتے ہیں اور بے صبری، نادانی و لا علمی کی وجہ سے صرف ہاتھ یاصرف زبان کے ذریعے سے اس ذمہ داری کو نبھانا چاہتے ہیں ۔ وہ نہیں دیکھتے کہ کیا کرنا مناسب ہے اور کیا نامناسب، کسے انجام دیا جاسکتا ہے اور کسے نہیں ۔ بس وہ اس راستے میں اپنی زبانیں چلاتے ہیں اور ہاتھ چلاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر رہے ہیں ، حالانکہ وہ اطاعت نہیں کر رہے ہیں بلکہ شرعی حدود کو توڑ رہے ہوتے ہیں ۔[1] اسی طرح مخاطب کی حالت اور قوت قبولیت کی رعایت ضروری ہے، اس میدان کے کارکنان کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے صراط مستقیم کی راہ اپنائیں ، منزل تک پہنچنے کا یہ سب سے قریبی راستہ ہے، اسی طرح اس راستے میں نرم پہلو اختیار کرنا، بردبار ہونا اور مشکلات پر صبر کرنا بھی ضروری ہے، اگر اس منصب کا ذمہ دار بردبار اور صبر کرنے والا نہ ہوا تو بناؤ سے زیادہ بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے، گویا اس راستہ میں تین چیزیں بالکل ضروری ہیں ،علم، نرمی اور صبر یعنی ذمہ داری اٹھانے سے پہلے بردباری اور اسے نبھاتے ہوئے نرمی اور میدان میں اترنے کے بعد اس پر صبر۔
[1] الفتاوٰی (۸؍۱۲۷، ۱۲۸)۔