کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 751
لَا تَتَّبِعُوْا عَوْرَاتِہِمْ فَاِنَّہٗ مَنْ یَتْبَعْ عَوْرَاتِہِمْ یَتْـبَعْ اللّٰہِ عَوْرَتَہٗ، وَمَنْ یَتْـبَعْ اللّٰہَ عَوْرَتَہٗ یَفْضَحْہٗ فِیْ بَیْتِہٖ۔)) [1]
’’اے وہ لوگو! جو اپنی زبانوں سے مومن ہو، اور ایمان دل میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو، اور نہ ان کے پوشیدہ عیوب کو تلاش کرو، کیونکہ جو شخص ان کے پوشیدہ عیوب کو تلاش کرے گا اللہ اس کے عیوب کا محاسبہ کرے گا اور اللہ جس کے عیوب کا محاسبہ کرلے گا اسے اس کے گھر میں رسوا کردے گا۔‘‘
بدگمانی انسان کو غیبت کی دعوت دیتی ہے، اور دوسروں کی عزت پر بٹہ لگانے کے لیے ورغلاتی ہے اور سب سے آخر میں بدگمانی، مسلمانوں میں اختلاف کو ہوا دیتی ہے۔ اخوت کی رسیوں کو توڑتی ہے، محبت و الفت کی چادر چاک کرکے دشمنی، بغض اور کینہ و کپٹ کی بیج بوتی ہے۔ تو جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ یہ آفت بڑی مہلکات اور شدید خطرناکیوں کو سمیٹے ہوئے ہے، اسی لیے اسلام نے اس کی روک تھام کے لیے نہایت سخت موقف اختیار کیا اور بدگمانیوں سے بچنے پر ابھارا ۔ کیونکہ واقعات شاہد ہیں کہ اس کی پیروی کرنے اور اس کے جال میں پھنس جانے کا بہت برا انجام اور بے شمار نقصانات ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ﴾ (الحجرات:۱۲)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت سے گمان سے بچو، یقینا بعض گمان گناہ ہیں ۔‘‘
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ اس آیت میں اپنے بندوں کو بہت زیادہ بدگمانیوں سے منع کرتا ہے، یعنی اپنے اہل واقارب اور عام لوگوں پر تہمت لگانے اور انھیں بے جا خیانت سے متہم کرنے سے روکتا ہے۔ اس لیے کہ بعض اوقات یہ باتیں خالص گناہ کا سبب ہوتی ہیں اور حقیقت کچھ نہیں ہوتی، لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس سے جتنا ممکن ہوسکے بچا جائے۔‘‘
اس سے بچنے کا ذریعہ یہ ہے کہ اپنے جس مسلم بھائی کے بارے میں بدگمانی ہو رہی ہے اس کے لیے عذر تلاش کیا جائے، یعنی اس کی گفتگو یا حرکت کو کسی مناسب معنی پر محمول کیا جائے۔ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم اپنے مومن بھائی کی زبان سے کوئی نامناسب کلمہ سنو تو جب تک اسے کسی بھلائی پر محمول کرسکتے ہو تب تک اس کے بارے میں بہتر ہی سوچو۔[2]
شدت پسندی اور دوسروں پر سختی:
اس دور کی غلو پرستی کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ دوسروں کے ساتھ سختی کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے اور یہ بات
[1] مسند أحمد (۴؍۴۲۱، ۴۲۴)۔
[2] تفسیر ابن کثیر (۴؍۲۱۲)۔