کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 750
بدگمانی: بدگمانی اس دور کی عام بیماری ہے اور اس کا نقصان سماج کے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکا ہے، یہ ایسی بلاخیز آفت ہے جو انسانی معاشرہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیتی ہے، تعمیری عناصر کو برباد کردیتی ہے، یہ انہدام و تخریب کا ایک کار گر ہتھیار ہے، معاشرہ پر اس کے بے حد خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اس مصیبت کے پیچھے بھی کچھ چیزیں موثر کردار ادا کرتی ہیں ، ان میں سب سے اہم سبب جہالت کا فروغ ہے، پس درپیش معاملات میں حقیقت حال سے جہالت، یا سنی اور دیکھی ہوئی چیزوں کی اصلیت سے ناواقفیت، پھر ان چیزوں میں دقیق شرعی علم تک نارسائی اور خاص طور سے جب معاملات ومسائل کسی قدر انوکھے ہوں اور دقت نظری و گہری سمجھ بوجھ کے متقاضی ہوں تو یہ چیزیں انسان کو بہت جلد بدگمانی میں مبتلا کردیتی ہیں اور وہ دوسروں کو عیوب سے متہم کرنے لگتا ہے اور بالمقابل کی ناقدری کرنے پر تل جاتا ہے۔ بدگمانیوں کا ایک سبب نفس پرستی بھی ہے، یہ تمام آفتوں کی ماں ہے، اس کے لیے بس یہی کافی ہے کہ کسی شخص میں ایسی بات دیکھے جو اسے ناپسند ہو، یا کتاب میں ایسی عبارت پڑھے جس سے وہ موافق و مطمئن نہ ہو، یا کسی سے ایسے بات سنے جو اس کی مرضی اور نظریہ کے خلاف ہو، بس اتنا ہی اس کے نزدیک کافی ہے کہ بدگمانی کی رسیوں کو ڈھیلی کردے اور زبان کو بے لگام چھوڑ دے کہ وہ جہاں چاہے چرے اور کھائے۔ ایسا شخص نفس پرستی کی دعوت دینے والے ان اسباب کو شریعت کے دقیق میزان پر نہیں تولتا، نہ ان کے لیے کوئی مناسب و معقول عذر تلاش کرتا ہے، اور سمجھ بوجھ تو درکنار اپنی ذاتی خامیوں پر نگاہ نہیں ڈالتا، کیونکہ نفس پرستی نے اسے ان چیزوں سے روک رکھا ہے۔ بدگمانی کا ایک سبب خود پسندی اور غرور بھی ہے، پس کسی انسان کا خود پسند ہونا اور اگر ہوشیار ہے تو اپنی ہوشیاری اور عقل مندی پر نازاں ہونا اور اپنی رائے کو برحق سمجھنا، اس کے تزکیہ نفس کے لیے مانع ہیں ، اس مرض میں مبتلا انسان اپنا تزکیہ کرتا ہے اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے، اس کا خیال ہوتا ہے کہ ہم ہی صحیح ہیں اور باقی غلط ہیں ، ہم ہی حق پر ہیں اور لوگ باطل ہیں ، ہمیں ہدایت یافتہ ہیں بقیہ گمراہ ہیں ۔ ہم نے بعض لوگوں کی بدگمانی کا عجیب و غریب حال دیکھا ہے وہ اپنے علاوہ سب کو خواہ زندہ ہوں یا مردہ، گمراہ اور بدعقیدہ کہتے ہیں ، سب کے عقائد و نظریات میں انھیں کمی اور غلطی نظر آتی ہے، اگر کوئی مخلص ہے تو بس یہی ہیں ، سب ہلاکت کی گردش میں ہیں ، صرف یہی نجات کی راہ پر ہیں ۔ پس بلا شبہ بدگمانی ایک آفت ہے اور ہر آفت کی کچھ مہلکات ہیں اور مہلک چیز مہلک ہی چیز کو جنم دیتی ہے۔ بدگمانی انسان کو عیب جوئی، لغزشوں کی تلاش اور غلطیوں کی جستجو پر انسان کو اکساتی ہے اور اس کا یہ زہر صرف دوسروں کو نہیں کھاتا بلکہ خود بدگمان بھی اللہ کے غیض و غضب کا مستحق ہوتا ہے کیونکہ یہ ان بیمار دلوں کی صفت ہے جنھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت رسوائی کا سامنا کرنے کی دھمکی دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِہٖ وَ لَمْ یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ قَلْبَہٗ لَا تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِیْنَ، وَ