کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 75
’’اما بعد! تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت واقع ہو چکی ہے اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، کبھی نہیں مرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’یقینا خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں ۔‘‘ اور فرمایا: ’’اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) صرف رسول ہی ہیں ، ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں ، تو کیا اگر آپ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم لوگ اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاؤ گے؟ اور جو شخص اپنی ایڑی کے بل پلٹ جائے تو (یاد رکھ) وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔‘‘ یہ سن کر رونے لگے۔[1] عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: واللہ! میں نے جیسے ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا انتہائی متحیر اور دہشت زدہ ہو کر رہ گیا، حتیٰ کہ میرے پاؤں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے۔ میں زمین پر گر پڑا اور میں جان گیا کہ واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت واقع ہو چکی ہے۔[2] امام قرطبی فرماتے ہیں : یہ آیت کریمہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور جرأت و دلیری کی بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ شجاعت اور جرأت مصائب و آلام کے وقت دل کے ثابت قدم رہنے کا نام ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے بڑھ کر کون سی مصیبت ہو سکتی ہے؟ اس سے آپ کی شجاعت اور علم ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت واقع نہیں ہوئی۔ عمر رضی اللہ عنہ انھی قائلین میں سے تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ گونگے ہو گئے۔ علی رضی اللہ عنہ روپوش ہو گئے۔ حالات انتہائی مضطرب ہو گئے۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر پہنچ کر حالات کو سنبھالا اور حقیقت سے پردہ اٹھایا۔[3] ان چند کلمات اور قرآن سے استدلال و استشہاد سے لوگ جو فرط غم کی وجہ سے حیران وششدر تھے ہوش میں آئے، ان کی حیرانی و پریشانی ختم ہوئی اور فہم صحیح کی طرف رجوع ہوئے کہ اللہ ہی حي وقیوم ہے، اس کو موت نہیں آنے والی ہے، وہی تنہا عبادت کا مستحق ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اسلام باقی رہے گا۔[4] جیسا کہ ایک روایت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ قول منقول ہے: یقینا اللہ کا دین قائم ہے، اللہ کا کلمہ مکمل ہے، اللہ تعالیٰ کی کتاب ہمارے درمیان ہے، وہ نور و شفا ہے، اسی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت بخشی، اس میں
[1] البخاری: فضائل الصحابۃ: ۳۶۶۸۔ [2] البخاری: المغازی ۴۴۵۴۔ [3] تفسیر القرطبی: ۴/۲۲۔ [4] استخلاف ابی بکر الصدیق: جمال عبدالہادی ۱۶۰۔