کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 748
مقالات، کتابوں ، لکچر ہالوں ، درس گاہوں اور تعلیمی حلقوں میں ان حملوں کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں ۔یہ حملے اور رجحانات امت مسلمہ کو زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں ، جو قوم پہلے سے منتشر ہے اس میں مزید انتشار اور جو امت پہلے سے گروہوں میں بٹی ہے اس میں مزید گروہ بندی کو پروان چڑھا رہے ہیں ، علمائے دین پر طعن و تشنیع کا یہ رجحان یونہی نہیں پیدا ہوا، بلکہ اس کے پیچھے بہت موثر عوامل کار فرما ہیں ، مثلاً بغیر استاد کے علم سیکھنا، علماء کی عبارتوں اور بیانات کا غلط مفہوم سمجھنا، نفس پرستی، اور حسد وغیرہ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ پُرجوش نوجوان اس بات میں کافی نیچی سطح تک اتر جاتے ہیں ، علماء کی عیب جوئی اور ان کی لغزشوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں ، ان کے بیانات اور ذاتی خیالات کو لے اڑتے ہیں اور اس میں رد و بدل کرکے کچھ کا کچھ کہتے پھرتے ہیں ۔
یہ حرکتیں عوام کو دھوکا دینے اور اپنے مخالفین کی دشنام طرازی کے لیے وجہ جواز تلاش کرنے کا ایک ذریعے سے ہوتی ہیں ۔ ان ناعاقبت اندیش دوستوں کی یہ حرکتیں اسلام کے لیے وبال جان اور شمنان اسلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ، یہ گندی حرکت جو کہ جہالت، حسد اور روحانی بیماری کی دلیل ہے ، اس سے علمائے عاملین نے ہمیشہ ڈرایا ہے، کیونکہ اس کے برے اثرات راست طور سے مسلمانوں پر مرتب ہوتے ہیں اور بلاکسی کد و کاوش کے اس کا فائدہ اسلام کے خلاف سازشیں رچانے والے اٹھاتے ہیں ۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ علما اور ائمہ کے ضعیف اقوال اور تفردات کو عام رواج دینے سے منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’… اس طرح کا ضعیف مسئلہ ائمۃ المسلمین میں سے کسی امام سے نقل کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ہے، خواہ اس پر رد و قدح مقصود ہو، یا اس پر عمل کرنا، کیونکہ اس میں ضعیف قول کی ترویج کے ساتھ امام پر طعن و تشنیع بھی ہوتی ہے، اسی طرح کے مسائل کی آڑ میں تاتاریوں کے ایلچی اور دم چھلے، اہل سنت کے درمیان فتنہ کی بیچ بوتے رہے اور انھیں خود ان کے عقائد سے اس طرح متنفر کردیا کہ وہ اپنوں کے خلاف بغاوت پر اتر گئے،اور انھیں روافض و ملحدین کے مذہب میں دھکیل دیا۔‘‘[1]
جو لوگ بھی امت مسلمہ کے علمائے عاملین پر زبانیں کستے اور ان پر طعن و تشنیع کرتے ہیں وہ بہرصورت شعوری یا غیر شعوری طور پر یہودی، نصرانی اور طاغوتی سازشوں اور جاسوسی مشینریوں کی خدمت کر رہے ہیں ، اور ایسے لوگ سمجھیں یا نہ سمجھیں اہل سنت و جماعت کے اس معتدل منہج سے ہٹے ہوئے ہیں جو اس بات کا قائل ہے کہ:
’’علمائے سلف متقدمین میں سے ہوں یا متاخرین میں سے، وہ بہرحال آثار نبوت کے تابعدار، خیر کے پرستار اور اہل فقہ و نظر ہیں ۔ ان کا ذکر جب بھی ہوگا خیر کے ساتھ ہوگا، جو ان کی شان میں گستاخی کرے گا وہ سیدھے راستے پر نہیں ہے۔‘‘[2]
[1] الفتاوٰی (۳۲؍۱۳۷)۔
[2] شرح العقیدۃ الطحاویۃ (۲؍۷۴۰)۔