کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 746
آج بھی خوارج کے افکار سے متاثر زیادہ تر لوگوں میں ان اوصاف کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔[1]
آسانیوں کو نظر انداز کرنا اور دوسروں کو تنگی میں ڈالنا بھی غلو پرستی کا ایک حصہ ہے، پس غلو پرست لوگ اپنے مخاطب کی صلاحیتوں اور لیاقتوں کی رعایت نہیں کرتے، ان کی طاقتوں کا فرق نہیں جانتے، ذہنوں کا تباین نہیں پہچانتے اور طاقت سے زیادہ فرائض کی انجام دہی پر انھیں مجبور کرتے ہیں ، آسان ترین شریعت کو ان کے لیے ناقابلِ عمل بنا دیتے ہیں اور ان الفاظ میں خطاب کرتے ہیں جنھیں مخاطب سمجھتے نہیں ۔
ورع فاسد، احکام شریعت کے مراتب سے جہالت اور لوگوں کے مقام و مرتبہ سے ناواقفیت، دوسروں کو تنگی میں ڈالنے کے اسباب ہیں ، جومختلف میدانوں میں رنگ و لباس بدل بدل کر آتے ہیں ، دوسروں پر اپنا نظریہ تھوپنا، سب سے اپنی بات منوانا، لوگوں کو نامانوس چیزیں بتانا، رخصتوں کو نظر انداز کرکے غیر مشروع سختیوں کو لازم کردینا اس کی خاص شکلیں ہیں ۔
’’انا‘‘ کی نمائش، غرور اور ناپختہ ذہن نوجوانوں کی قیادت:
عصر حاضر کی مبالغہ پرست اور انتہا پسند ذہنیت کی علامت اور اس کی خاص صفت یہ ہے کہ اس پر غرور، ہمہ دانی اور علم برداری کا خمار چڑھا ہوتا ہے، جب کہ انھیں علم شرعی کی اساسی تعلیمات، احکام اور قواعد تک سے ناواقفیت ہوتی ہے، اور اگر تھوڑا بہت علم ہے بھی تو وہ اصول و ضوابط، صحیح فقہ اور درست رائے کی قید وبند سے آزاد ہے۔ وہ اپنے معمولی علم اور بیمار فہم پر اس قدر نازاں ہوتے ہیں کہ جیسے انھیں اولین و آخرین کے علوم تک رسائی ہو، پھر وہ اپنے اس غرور کے جھانسے میں علمائے راسخین کے علم کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں ، حصول علم کا سلسلہ بند کردیتے ہیں ، خود تو ہلاک ہوئے ہی اور دوسروں کو بھی ہلاک کرتے ہیں ۔ خوارج کا بس یہی حال تھا، انھیں علم و اجتہاد کا دعویٰ تھا، وہ علماء پر زبان دراز تھے، جب کہ حقیقت میں وہ نرے جاہل تھے، ان کے غرور اور علم برداری کی اس ہوس نے ناپختہ ذہن نوجوانوں اور ناعاقبت اندیشوں کو بلا علم و فقہ کے دعوت کے میدان میں قیادت کے لیے آگے بڑھایا، پھر کچھ لوگوں نے ان جاہلوں کو اپنا پیشوا اور علم بردار تسلیم کرلیا، پھر کیا تھا؟ انھوں نے بلا علم و بصیرت فتویٰ دیا، فیصلے سنائے اور ناتجربہ کاری اور کم عقلی کی بنا پر بڑے بڑے حوادث و نقصانات کا سامنا کیا، ان میں بیشتر ایسے لوگ دیکھنے میں آتے ہیں ، جو علمائے دین اور بزرگان اسلام کی تنقیص کرتے ہیں ، ان کا مقام و مرتبہ نہیں پہچانتے، اگر ان علماء میں سے کسی نے ان کی رائے اور نظریہ کے خلاف فتویٰ دے دیا، ان کے برعکس موقف اختیار کرلیا تو انھوں نے اس پر دانستہ غلطی یا نااہلی، اور بزدلی یا مداہنت یا سادگی اور معلومات کی کمی کی تہمت لگادی، یا اس کے علاوہ اور کوئی نازیبا اسلوب اختیار کیا کہ جس سے فرقہ بندی، فساد عظیم، علماء کی ناقدری اور ان پر عدم اعتماد کو بڑھاوا دینے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں جس کا نقصان راست طور پر تمام مسلمانوں کو دین و دنیا دونوں جگہ اٹھانا پڑتا ہے۔[2]
[1] الخوارج ؍ ناصر العقل ص (۱۳۰)۔
[2] الخوارج ؍ناصر العقل ص (۱۲۹)۔