کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 745
سامنے مسلمان سجدہ ریز ہو کر ذلت، رسوائی اور احساس کمتری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے، جیسے کہ آج دیکھا جارہا ہے۔[1] دشمنان اسلام کی سرپرستی میں اخلاقی انارکی عام ہوچکی ہے اور اس نے پورے سماج کو اس طرح لپیٹ لیا ہے کہ جذبۂ اصلاح سے معمور افراد بھی کامیابی کی کوئی کرن دیکھنے سے مایوس نظر آتے ہیں اور پھر یہی ناامیدی رفتہ رفتہ پرجوش نوجوانوں کے دلوں میں گھر کرجاتی ہے، وہ غمزدہ ہو کر انتہا پسند رد عمل اختیار کرلیتا ہے پھر یہ رد عمل مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے یعنی وہ ان الحادی تھپیڑوں میں بہ جاتا ہے، یا اپنے لیے منفی اور دشمنانہ موقف کو ترجیح دیتا ہے اور یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ جس معاشرہ میں اس قدر اعتقادی اور اخلاقی بگاڑ ہو اس میں ہرگز بھلائی نہیں ہے اور بسااوقات فکر کی اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے کہ یہ معاشرہ مسلم معاشرہ نہیں بلکہ کافر معاشرہ ہے۔[2]
۷۔تزکیۂ نفس کا عدم اہتمام:
تکفیری خیال کے پیدا ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ تربیتی پہلو کی کمزوری کی وجہ سے تزکیہ نفس کا اہتمام نہیں ہوتا، پھر انسان اپنی ذات سے غافل ہو کر غرور، ظلم اور دوسروں کی عیب جوئی میں لگ جاتا ہے، تزکیۂ نفس کا اہتمام نہ کرنے سے کئی خطرناک امراض پیدا ہوتے ہیں ، مثلاً ایسا انسان جلد بازاور اطاعت پر غرور کرنے والا ہوجاتا ہے۔ وہ نفس پرست بن جاتا ہے، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کا احترام نہیں کرتا اور کبھی کبھی اپنے علاوہ سب کو اسلام سے باہر سمجھتا ہے۔[3]
یہ تھے دور حاضر میں انتہا پسند ذہنیت کے پیچھے کارفرما عوامل جن کے نتیجے میں آج مسلم معاشرے میں غلو پرستی کے متعدد مظاہر دیکھنے میں آرہے ہیں ۔
دور حاضر میں غلو پرستی کے چند مظاہر
دین و عبادت کے نام پر نفس کشی اور دوسروں کو تنگی میں ڈالنا:
دور حاضر میں غلو پرستی کا ایک نمونہ یہ ہے کہ دین نے جس اعتدال پسندی کو سراہا تھا اور جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قائم تھے اس سے دوری بڑھتی جارہی ہے، جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ ہٰذَا الدِّیْنَ یُسْرٌ وَ لَنْ یُّشَادَ الدِّیْنَ اَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہٗ۔))[4]
’’دین آسان ہے، جو شخص اس کے ساتھ زور آزمائی کرے گا اس پر یہ غالب آجائے گا۔‘‘
دین میں تشدد دراصل دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، اور یہ دونوں باتیں خوارج کے اوصاف میں داخل ہیں ،
[1] ظاہرۃ التکفیر ص (۱۵۲)۔
[2] ظاہرۃ التکفیر ص (۱۸۵)۔
[3] ظاہرۃ التکفیر ص (۱۸۵)۔
[4] صحیح البخاری مع الفتح ؍ الإیمان (۱؍۹۳)۔