کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 743
وقت آیا تو اللہ واحد کی ذات کے بعد وہ انھیں کی طرف پلٹی، اس لیے کہ اسے علماء کا مقام معلوم ہے، اس کا ہر فرد جانتا ہے کہ ان میں حرکت و انقلاب کی صلاحیت موجود ہے اور وہ ہر مشکل اور ہر چیلنج کو قبول کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح حکام کو محبت کی بنا پر یا ڈر کی وجہ سے بہرحال علماء کی قدر و منزلت کا اعتراف رہا ہے۔ علمائے دین کبھی کسی میدان میں پیچھے نہیں رہے، بلکہ مجاہدین اور مسلم جنگجوؤں میں پیش پیش رہے اور بھلائی کا حکم دینے والوں اور برائی سے روکنے والوں میں بھی سرفہرست رہے، معاً اپنی قوم کی خوشیوں اور غم میں بھی شریک رہے، اس راستہ میں انھیں مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا، لیکن سب کچھ برداشت کیا اور اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی، اس لیے کہ وہ وارثین انبیاء ہونے کا معنی اچھی طرح جانتے تھے۔[1] علماء ہی اسلام کے فقہا ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی باتوں پر پوری مخلوق میں فتووں کا دار و مدار ہے، انھیں کو احکام مستنبط کرنے میں اختصاص اور حلال و حرام کے قواعد متعین کرنے میں عبور حاصل ہوتا ہے۔[2] یہ علماء ہی ائمہ دین ہیں انھوں نے بڑی مشقت اور صبر و یقین کے ذریعے سے اس بلند مقام کو حاصل کیا ہے: ﴿ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ ﴾ (السجدۃ: ۲۴) ’’اور ہم نے ان میں سے کئی پیشوا بنائے، جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے، جب انھوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین کیا کرتے تھے۔‘‘ علماء ہی ورثاء انبیاء ہیں ، انھوں نے ان سے علم وراثت میں پائی ہے اور اسے اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا ہے، اسے اپنے اعمال میں کر دکھاتے ہیں اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ہیں ۔ علماء ہی اس امت کے وہ منتخب گروہ ہیں جنھوں نے اللہ کے دین کو سیکھنے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا ہے۔پھر دعوت کے کام میں لگ گئے ہیں اور انداز و تبلیغ کے مہم پر گامزن ہیں ، لہٰذا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے بیچ میں رہیں اور انبیاء کے وارث کی طرح اپنی ذمہ داری نبھائیں ، گوشہ گیری سے دست بردار ہوں ، لوگوں کے مشکلات اور نج و غم میں شریک ہوں ، فقط انذار و تبلیغ پر اکتفا نہ کریں بلکہ لوگوں کی تربیت، تہذیب اور رہنمائی کے لیے کمربستہ ہوں ، ان کے ساتھ اکھڑپن کی زندگی پر صبر کریں اور ان کی فکری، نفسیانی، اجتماعی اور سیاسی مشکلات کو اللہ کی شریعت کے مطابق حل کریں ۔ پس علماء ہی ہر دور میں لوگوں کے رہبر رہے ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ اللہ کا امر (قیامت) نہ آجائے۔ قیامت تک مددیافتہ جماعت میں یہ لوگ سرفہرست ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِیْ قَائِمَۃٌ بِأَمْرِ اللّٰہِ لَا یَضُرُّہُمْ مَنْ خَذَلَہُمْ أَوْ خَالَفَہُمْ
[1] ظاہرۃ التکفیر ؍ الأمین الحاج محمد أحمد ص (۱۸۱)۔ [2] أعلام الموقعین (۱؍۷)۔