کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 742
بہرحال ہماری اس طویل گفتگو کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم لوگوں کو کتابوں کی ورق گردانی اور علم حاصل کرنے سے منع کر رہے ہیں ، علم کا طلب کرنا ایک دینی فریضہ ہے جو مہد سے لحد تک ہم پر واجب ہے، بلکہ ہمارا مقصود یہ ہے کہ مذکورہ فکر کے حاملین کتنابھی پڑھ لیں اور کتابوں کا مطالعہ کرڈالیں تاہم انھیں شرعی علوم کے متخصص علمائے دین کی ضرورت پڑے گی، اس لیے کہ علم شرعی کے حصول کے لیے کچھ لوازم و متعلقات ہیں جو انھیں ابھی مکمل طور سے حاصل نہیں ، کچھ اصول ہیں جن کی معرفت اور استیعاب پر انھیں عبور نہیں ، کچھ فروع اور تکملے ہیں جن کے لیے ان کے پاس اوقات اور فرصت نہیں ۔[1] لہٰذا ہم ایسی جرأت اور عجلت کے قائل نہیں جو منتشر اور نظم و ضبط سے عاری ہو، فکر و نظر کی ایسی سستی، درماندگی اور جمود کے ہم مداح نہیں جو بحث و تحقیق کے لیے چیلنج اور عقل کی راہ میں پتھر بن کر حائل ہو، ہم محنت، لگن اور کوشش کا وہ ترنگ دیکھنا چاہتے ہیں جس میں سنجیدگی ہو، صبر و ثبات ہو، تحقیق و انتظار ہو اور مشکل مسائل کے لیے استفسار ہو، کیونکہ اعتدال و توسط ہی بہتر ہوا کرتا ہے۔[2] ۳۔ علماء کی کوتاہیاں اوراپنی ذمہ داریوں سے اعراض: علمائے دین، انبیاء کے وارث ہیں ، اس لیے انھیں معاشرہ کی رہنمائی اور اصلاح کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لینی چاہیے، علماء پر یہ فرض ہے کہ اپنے اخلاق و کردار، محنت و کاوش اور علم و معرفت کے ذریعے سے لوگوں میں اپنا ادبی، علمی اور منصبی مقام ثابت کریں ، ان پر یہ ذمہ داری ہے کہ معاشرہ کو صحیح رخ پر لے جانے کے لیے اس دین اور دینی علوم کے ذریعے سے حرکت میں آئیں ، حاکم اور رعایا کو ان کے صحیح صحیح مقام پر پہنچائیں ، حاکم کو صحیح مقام پر پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اللہ کی شریعت کا پابند بنائیں ، تاکہ معاشرہ میں جو سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی ظلم موجود ہے اس کا خاتمہ ہو اور رعایا کو صحیح مقام پر لے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انھیں بھی اللہ کے احکامات اور منہیات کا پابند کریں ، تاکہ معاشرہ میں جو اخلاقی اور روحانی بگاڑ موجود ہے اور جو انارکی پھیلی ہوئی ہے اس کا خاتمہ ہو، یا کم از کم ان برائیوں کے خاتمہ کے لیے کوشش کا آغاز ہو، تاکہ لوگوں کے اخلاص و نیک نیتی اور جد و جہد کے مطابق اصلاحی کوششیں بار آور ثابت ہوں ، معاشرہ کی اصلاح و تعمیر میں علمائے دین کا ہر دور میں قائدانہ کردار رہا ہے اور حکام ہوں یا رعایا سب کو ان کی کاوشوں کا اعتراف و احترام کرنا پڑا ہے۔ لادینی سیاست اسی وقت آگے بڑھی جب علمائے دین نے امت کی قیادت و رہنمائی کرنے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، تاریخ شاہد ہے کہ عوام نے کبھی کسی کو اپنے علماء کا متبادل نہیں سمجھا، اور نہ اسے پسند کیا، حکومتیں بدلتی رہیں لیکن امت مسلمہ مسلسل اپنے علماء کی عقیدت مند رہی، ان سے محبت کی، ان سے لگی لپٹی رہی اور جب بھی کوئی نازک
[1] الصحوۃ الإسلامیۃ ص (۳۰۶)۔ [2] ظاہرۃ الغلو ص (۳۲۶)۔