کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 741
علامہ ابن جماعۃ رحمہ اللہ علم و اخلاق کے معلم کے انتخاب کے لیے طالب علم کو چند آداب سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طالب علم کی پوری کوشش ہو کہ اس کا استاد علوم شرعیہ کا بہم معلومات رکھتا ہو اور اپنے دور کے علماء و مشائخ کی صحبت اور بحث و تحقیق کا عادی ہو، اس کا استاد ایسا نہ ہو کہ اس نے فقط کتابوں کی ورق گردانی پر اکتفا کیا ہو، اور ماہرین علمائے دین کی صحبت سے ناواقف ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے فقط کتابوں کی ورق گردانی سے فقہ و معرفت حاصل کی اس نے احکام کو ضائع کردیا اور بعض علماء کہتے تھے کہ سب سے بڑی مصیبت صرف کتابوں پر اعتماد کرناہے، یعنی جو لوگ فقط کتابوں سے علم حاصل کرنے پر بس کرتے ہیں کسی ماہر استاد کی طرف رجوع نہیں کرتے۔[1] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: مَنْ یَاْخُذِ الْعِلْمَ عَنْ شَیْخٍ مُشَافَہَۃً یَکُنْ مِنَ الزَّیْغِ وَ التَّصْحِیْفِ فِیْ حُرُمٍ ’’جو شخص بزرگ علمائے دین سے رو برو ہو کر علم حاصل کرتا ہے وہ بہکنے اور غلط تعلیم و تعلم سے محفوظ رہتا ہے۔‘‘ وَمَنْ یَکُنْ آخِذًا لِلْعِلْمٍ مِنْ صُحُفٍ فَعِلْمُہٗ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ کَالْعَدْمِ ’’اور جو شخص فقط کتابوں کی ورق گردانی سے علم سیکھتا ہے تو اہل علم کے نزدیک اس کا علم نہ کے برابر ہے۔‘‘ بعض علمائے سلف کا قول ہے: ’’جس نے بغیر استاد کے قرآن سیکھا ہو اس کو قرآن نہ سناؤ اور نہ کتابی علماء سے علم حاصل کرو۔‘‘[2] امام ابوزرعہ فرماتے ہیں : ’’کتابی عالم لوگوں کو فتویٰ نہ دے اور نہ انھیں قرآن پڑھائے۔‘‘[3] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ (الانبیاء:۷) ’’پس ذکر والوں سے پوچھ لو، اگر تم نہیں جانتے ہو۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو غلط ٹھہرایا ہے جو معاملات کی تحقیق اور حق تک رسائی پانے سے پہلے انھیں عام کرنے لگتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے پھرتے ہیں ، کیونکہ بعض اوقات وہ بات درست نہیں ہوتی۔[4]
[1] الفقیہ و المتفقہ ؍ خطیب بغدادی (۲؍۹۷)۔ [2] ایضًا [3] الفقیہ والمتفقہ؍ خطیب بغدادی (۲؍۹۷)۔ [4] تفسیر ابن کثیر(۱؍۵۹۳)۔