کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 740
راست طور پر استفادہ کی نوعیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ ان سے عقائد و اخلاق اور عبرت و مواعظ کے اصول سیکھیں ، یہ ایسی چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح واضح انداز میں پیش کیا ہے جنھیں سمجھنے کے لیے قرآنی زبان و لغت کا جاننے والا کچھ بھی دِقت نہیں محسوس کرے گا اور جہاں تک عقائد و احکام کی باریکیوں کی معرفت کی بات ہے تو اس کا دائرہ اوّل الذکر مباحث سے بہرحال تنگ ہے اور یہ صرف باصلاحیت اور ماہرین فن کے لیے خاص ہے، یعنی ایسے باصلاحیت اور ماہرین جن کا دامن علوم لغت، علوم اصول اور علوم حدیث سے اس طرح بھرا ہو کہ وسعت استنباط، حسن فہم اور صحیح نتیجہ اخذ کرنے پر انھیں عبور حاصل ہو۔ متشابہات اور پیچیدہ مسائل میں وہ الجھن اور لغزشوں میں نہ واقع ہوں ، علم وحکمت پر مبنی اسی تفریق کے واضح خطوط پر صحابہ کرام نے عمل کیا، ان کے پاس مسائل آتے تھے اور حوادث و واقعات پیش ہوتے تھے پھر یہ لوگ انتہائی باریک بینی سے ان کا جائزہ لیتے تھے، اگر ان مسائل کا تعلق پہلی قسم سے ہوتا تو نہایت آسانی سے اسے سمجھتے اور سمجھاتے اور اگر ان کا تعلق دوسری قسم سے ہوتا تو جرأت کا مظاہرہ نہ کرتے، بلکہ توقف کرتے، اپنے علماء و فقہاء سے پوچھتے اور سمجھتے، لہٰذا یہی منہج قابل اتباع ہے اور یہی عقل و حکمت کا منہج ہے، جو جمود و تعطل سے بچاتا ہے اور فکری انتشار و بے اطمینانی سے محفوظ رکھتاہے۔ بغیر معلم کے ایسے بعض ناقص فقیہوں کی فقاہت کے بڑے برے اور خطرناک اثرات سامنے آتے ہیں ، سب سے خطرناک بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ مختلف علوم و فنون میں اسلاف کے علمی ذخائر سے ان لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے، علمائے دین پر زبان دارزی معمولی چیز ہوجاتی ہے، نصوص شرعیہ کا مفہوم متعین کرنے میں حرفیت پسندی غالب آجاتی ہے، بے محابا فتاوے صادر کرنے کی جرأت بڑھ جاتی ہے اور انتہا پسند افکار کو ترجیح دی جانے لگتی ہے۔ لیکن کیا علم انھیں چیزوں کا نام ہے؟ نہیں ، بلکہ اسلام نے ہمیں علم کے کچھ آداب و ابواب بتائے ہیں ، پس نیک بخت وہی ہے جو ان آداب سے آراستہ ہو اور انھیں راستوں سے علم کے دروازے کھٹکھٹائے، تاریخ کے تمام ادوار میں ہمیں کوئی ایک فرد بھی نظر نہیں آتا جس نے علم و تعلم کے پہلے ہی مرحلہ میں راست طور پر قرآن و سنت کی طرف رجوع کرکے احکامات کو مستنبط کرنا شروع کردیا ہو اور اپنے متقدمین علماء کے اقوال و تصریحات کو یکسر نظر انداز کردیا ہو، یا اس پر بعدمیں نگاہ ڈالی ہو، ہمیں کوئی نہیں ملتا، ہاں اگر ملتے ہیں تو صرف وہ گنوار جاہل، فقہ و بصیرت سے اندھے اور فقہاء سے کنارہ کش رہنے والے خوارج، یا ان کے افکار و نظریات سے متاثر دیگر لوگ۔[1] اپنے سے پیشتر اہل علم کے آراء و اقوال اور ان کے فہم و بصیرت کو نظرانداز کرکے راست طور پر فقط کتابوں پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے علم سیکھنے والوں کے بارے میں علمائے متقدمین نے کافی زجر و توبیخ کا موقف اختیار کیا ہے، اس لیے کہ اس سے تحریف و تصحیف، احکام میں ردو بدل، اللہ پر بے جا بہتان اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کا دروازہ کھلتا ہے۔
[1] ظاہرۃ الغلو فی الدین ص (۳۲۳ تا ۳۲۴)۔