کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 74
انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تھے پورا مدینہ روشن ہو گیا تھا اور جس دن آپ کی وفات ہوئی پورا مدینہ تاریک ہو گیا۔[1] اس حادثہ دلفگار پر ام ایمن سے رہا نہ گیا وہ رونے لگیں ۔ پوچھا گیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں رو رہی ہو؟ فرمایا: میں پہلے سے جانتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گی لیکن میں آج وحی الٰہی کے منقطع ہو جانے پر رو رہی ہوں ۔[2]
۲۔ حادثہ دلفگار کی ہولناکی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا موقف:
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات فرما گئے تو مسلمانوں میں عجیب اضطراب پیدا ہوا۔ کچھ لوگ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے، کچھ لوگ بیٹھ گئے تو کھڑے ہونے کی طاقت نہ رہی، کچھ لوگوں کی زبان گنگ ہو گئی، بات کرنے کی طاقت نہ رہی اور کچھ لوگوں نے تو کلیتاً آپ کی وفات کا ہی انکار کر دیا۔[3]
جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خبر سنی تو فوراً مقام سُنح کے مکان سے گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے، اتر کر مسجد میں گئے، کسی سے کوئی بات نہ کی، سیدھے حجرئہ عائشہ میں داخل ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدھے پہنچے، آپ کے اوپر یمنی چادر ڈال دی گئی تھی، آپ کا چہرہ کھولا آپ سے چمٹ کر آپ کو بوسہ دیا اور رو پڑے، پھر فرمایا:
((بابی انت وامی واللّٰه لا یجمع اللّٰه علیک موتتین ، اما الموتۃ التی علیک فقد مُتَّہا۔))[4]
’’میرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں طاری نہیں کرے گا، جو موت طاری ہونی تھی وہ موت آپ پا چکے۔‘‘
پھر آپ باہر تشریف لائے، عمر رضی اللہ عنہ غصے میں بھرے ہوئے بولتے جا ر ہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ((اجلس یا عمر)) ’’عمر بیٹھ جا۔‘‘
پھر آپ نے اللہ کی حمدوثنا بیان کرتے ہوئے لوگوں سے اس طرح خطاب فرمایا:
((اما بعد: فان من کان یعبد محمدا فان محمدا قد مات ، ومن کان یعبد اللّٰه فان اللّٰه حی لا یموت، وقال اللّٰه تعالی:
﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ﴾ (الزمر: ۳۰) وقال:
﴿ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ ﴾
(آل عمران: ۱۴۴)
[1] الترمذی: ۳۶۱۸، ۵/۵۴۹۔
[2] مسلم: ۴/ ۱۹۰۷۔
[3] لطائف المعارف: ۱۱۴۔
[4] البخاری: المغازی ۴۴۵۲۔