کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 739
نے تو یہاں تک مبالغہ کیا کہ علمائے سلف کے اقوال کو ’’احمقانہ‘‘ قرار دے ڈالا، ان کے مناہج کو پھینک دیا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ تو تقلید مذموم ہے، پھر اسی پر بس نہیں بلکہ فتاوی میں جرأت کا مظاہرہ کیا، قرآن و سنت کے معاون علوم پر دسترس حاصل کیے بغیر براہ راست ان دونوں سے مسائل کا استنباط شروع کردیا۔[1] ۱ وہ بھي مرد تھے اور ہم بھي مرد ہیں :…یہ ایک دل پذیر جملہ ہے جس نے دور حاضر کے بہت سے پرجوش نوجوانوں کے دلوں کو چھو لیا ہے، اس لیے کہ اس میں انسان کی ’’انا‘‘ کو مقام دیا گیا ہے اور غیر کی تابعداری کو ہلکا کرکے پیش کیا گیا اور یہ ایسی چیز ہے جس کی طرف انسانی طبیعت تیزی سے لپکتی ہے، دراصل یہ قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے، لیکن لوگوں نے اس کے قائل، اس جملہ کی معنویت اور اس کی مناسبت کو بھلا دیا اور قرآن کی ظاہری آیت یا حدیث کے ظاہری الفاظ کو لے اڑے اور ان آیات و احادیث کے معانی و مفاہیم کی تشریح میں علماء کے خیالات و تحقیقات پر بہت کم توقف کیا اور بعض اوقات انھیں نظر انداز کردیا، پھر جب ان سے کہا گیا کہ آپ لوگ یہ کیا کر رہے ہیں ؟ صبر کرو، انتظار کرو، احکامات بیان کرنے میں عجلت نہ کرو اور علمائے سلف کے فہم و اقوال کو بھی دیکھ لو، تو برجستہ ان لوگوں کا جواب ہوتا ہے: ’’وہ بھی مرد تھے اور ہم بھی مرد ہیں ۔‘‘ ہاں ٹھیک ہے میرے پرجوش نوجوان دوستو! یقینا جسمانی ساخت اور بشری طبیعت میں تم ضرور انھیں کی طرح ہو، لیکن کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ جملہ کس نے کہا؟ اور کس مناسبت سے کہا؟ اس کے قائل وہ امام علم و فقہ ہیں جن پر اللہ نے گہری بصیرت کا انعام کیا، علم کی گیرائی و گہرائی کے ساتھ ان کے دل کو متقی بنایا۔ آپ نے یہ جملہ اپنے اجتہادی اصول کی وضاحت کے ضمن میں فرمایا تھا۔ آپ نے کہا تھا کہ اگر دلیل قرآن اور سنت ہوں تو انھیں سب پر مقدم جانتا ہوں اور اگر صحابی کا قول ہو تو اس سے باہر نہیں نکلتا اور اگر تابعی کا قول ہو تو وہ بھی مرد تھے اور ہم بھی مرد ہیں ۔ لہٰذا آپ کے اس قول کا موقع و محل بھی دیکھا جائے تاکہ تطبیق میں الجھاؤ نہ ہو، چلو ٹھیک ہے کہ وہ بھی مرد تھے، عالم تھے، اور مجتہد تھے، لیکن کیا تم بھی ان چیزوں میں انھیں کی طرح ہو؟ ۲ صحابہ کا منہج قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ:…آج کے اس دور میں جب کہ صحابۂ کرام کا منہج انسان کے درمیان سے عنقا ہو چکا ہے، ہمارے بعض حضرات نے ان کے منہج عمل کی تحدید شرع کردی ہے، مسائل و احکام کے استنباط کے لیے راست طور پر قرآن اور سنت کو استعمال کرتے ہیں اور علمائے اسلام کی شرعی تصریحات و خیالات سے قطعاً استفادہ نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ بس ہمارے لیے قرآن و سنت کے ظواہر کافی ہیں ، وفات شدگان علمائے دین کی فہم و تشریحات کی ہمیں ضرورت نہیں ہے، وہ دونوں صاف چشمۂ آب حیات ہیں ، انھیں ہم کسی اور چیز سے گدلا نہیں کریں گے، حالانکہ یہاں ان کا نشانہ خطا کرگیا ہے، کیونکہ قرآن و سنت سے راست طور پر استفادہ کے لیے بھی کچھ حدود و قیود ہیں ، اس لیے ہر مسلمان کے لیے قرآن و سنت سے
[1] ظاہرۃ الغلو فی الدین ص (۳۱۹)۔