کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 738
دور حاضر کے بعض مسلمان بھی اسی غلطی میں واقع ہیں اور صدق و عدل پر مبنی کلمات کی غلط تطبیق کرتے ہیں ، پھر یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ وہ احکامات بیان کرنے میں نامناسب جرأت کرتے ہیں اور معتدل رائے سے نکل جاتے ہیں ۔ انھیں کلمات میں سے ایک کلمہ ’’تقلید مذموم‘‘ بھی ہے۔ یہ الفاظ اپنی جگہ بالکل برحق ہیں ، قرآن و سنت سے اس کی تائید ہوتی ہے اور ائمہ دین نے اس تقلید سے منع فرمایا ہے، لیکن ان الفاظ کے استعمال میں بعض لوگوں کے یہاں کچھ لغزشیں ضرور ہیں ، اس لیے اس سے متعلق چند باتوں کی نشان دہی ضروری ہے تاکہ یہ الفاظ اپنے صحیح مقام پر مستعمل ہوں : ٭ وہ تقلید باطل اور مذموم ہے جس میں دوسرے کی بات بلا حجت و دلیل قبول کرلی جائے۔[1] ٭ اس آدمی کا مقلد ہونا مذموم ہے جسے اجتہاد پر قدرت حاصل ہے، لیکن جو اجتہادی صلاحیت سے محروم ہو اس کے لیے تقلید جائز ہے۔[2] ٭ متقدمین علماء کی کتابیں پڑھنا اور غیر جانب دار ہو کر ان کے آراء و اقوال سے استفادہ کرنا تقلید مذموم نہیں ہے، بلکہ طالب علم کے لیے یہی مناسب ہے کہ کسی مسئلہ میں حکم لگانے سے پہلے اپنے متقدمین علما کے آراء و خیالات پڑھ لے تاکہ انھیں کی روشنی میں کوئی فیصلہ دے۔[3] عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جس شخص کو کسی مسئلہ میں علما کے اختلاف کا علم نہ ہو اسے فتویٰ نہیں دینا چاہیے، ورنہ اپنے علم کے بالمقابل ثقہ اور معتمدعلم کو ضائع کردے گا۔‘‘[4] قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جس نے مسائل میں اختلافات کو نہیں جانا اس نے فقہ کی بو تک نہیں پائی۔‘‘[5] یحییٰ بن سلام نے فرمایا: ’’جو اختلافات کو نہ جانتا ہو اس کے لیے فتویٰ دینا مناسب نہیں ہے، اور جو علماء کے اقوال کو نہ جانتا ہو وہ یہ نہ کہے کہ یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘[6] لیکن حیرت ہے کہ دور حاضر کے ہمارے بعض علماء نے تقلید کے عدم جواز کے قاعدہ کو صحیح مقام پر تطبیق دینے میں غلطی کی اور اس میں عوام کے ساتھ علماء کو بھی لپیٹ لیا، اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والوں اور نہ رکھنے والوں میں تفریق نہیں کی، نہ ہی اصول و فروع میں فرق کیا۔ پھر کیا ہوا؟ علماء کے اقوال سے اعراض کرنا شروع کردیا اور بعض
[1] الفتاوٰی (۱۵؍۲۰۱)۔ [2] الفتاوٰی (۲۰؍۲۰۳، ۲۰۴)۔ [3] ظاہرۃ الغلو فی الدین ص (۳۱۸)۔ [4] جامع بیان العلم و فضلہ (۲؍۴۶، ۴۷)۔ [5] جامع بیان العلم و فضلہ (۲؍۴۷)۔ [6] ظاہرۃ الغلو فی الدین ص (۳۱۹)۔