کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 737
لگایا جاتا ہے اسے اس کا علم نہیں ہوتا۔[1] بہرحال دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے یہ پرجوش نوجوان شرعی علوم اور اس کے لوازمات و تقاضوں کی علم و معرفت میں عوام ہی کے درجہ میں ہوتے ہیں اور اسی لاعلمی کی وجہ سے وہ علمائے دین سے سوال کرنے اور استفسار کرنے سے گریز کرتے ہیں اور نتیجہ میں فکری انتشار کی کڑوی فصل کاٹتے ہیں ۔ صحیح کلمات کا غلط استعمال:…یہ ایک خطرناک آفت ہے جو اس سے محفوظ رہا وہ نجات پاگیا، ماضی میں یا آج جو لوگ بھی خوارج کے انتہا پسند نظرئیے کاشکار ہوئے ان کی غلطی ان کے دلائل اور استدال میں نہیں ہے بلکہ اصل غلطی اس کے بے جا تطبیق، اور مراد کی تعیین میں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب خوارج نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا اور ’’لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ‘‘ کہہ کر آپ پر کفر کی تہمت لگائی تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((کَلِمَۃُ حَقٍّ اُرِیْدَ بِہَا الْبَاطِلُ)) یعنی کلمہ تو حق ہے لیکن اس کے ذریعے سے ارادہ باطل کا ہے۔[2]
[1] جامع بیان العلم و فضلہ (۲؍۱۱۴، ۱۱۵) تقلید غیر نبی کی بات کو بلا دلیل تسلیم کرلینے کو کہتے ہیں جیسا کہ مسلم الثبوت وغیرہ اصول فقہ کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب وسنت میں کہیں بھی تقلید کا ذکر نہیں آیا ہے بلکہ اطاعت و اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ﴾ (النساء:۵۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں ، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَۚ ﴾ (الاعراف:۳) ’’اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔‘‘ لہٰذا ہر ایک مسلمان کی ذمہ داری اتباع ہے خواہ وہ عالم ہو یا عامی، اگر براہ راست کتاب و سنت سے استفادہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر علمائے حق کی طرف رجوع کرکے عمل کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ (الانبیاء:۷) ’’اگر تمھیں علم نہیں ہے تو علم رکھنے والوں سے دریافت کرلو ۔‘‘ سیدھی سادھی بات ہے، عدم علم کی صورت میں موجود علمائے حق کی طرف رجوع کرکے عمل کیا جائے، خود سے اجتہاد و استنباط نہ کیا جائے اور فتویٰ جاری کرنا نہ شروع کردے بلکہ جو فتویٰ کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کی طرف رجوع ہو اور پھر اگر اس فتویٰ اور جواب کے خلاف کوئی آیت یا حدیث صحیح آجائے تو اس آیت و حدیث پر عمل پیرا ہو جائے۔ یہی سلف صالحین کا طرز عمل تھا۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((مَنِ اسْتَبَانَتْ لَہٗ سُنَّۃُ لِرَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم لَا یَحِلُ لَہٗ أَنْ یَّتْرُکَہَا بِقَوْلِ أَحَدٍ کَائِنًا مَنْ کَانَ۔)) جس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہوجائے تو اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ اسے کسی کے قول کی وجہ سے چھوڑ دے کسے باشد۔ یہ ہے سلف کا منہج جس پر اہل الحدیث ہمیشہ قائم رہے ہیں ، یہی اعتدال کی راہ ہے فکری آوارگی اورتقلیدی جمود دونوں ہی افراط و تفریط کے راستے ہیں ۔ اعتدال کی راہ ترک کرنے سے جہاں ایک طرف خروج و تکفیر کے فتنے جنم لیا وہاں تقلیدی جمود سے امت افتراق کا شکار ہوئی اور امت واحدہ کا تصور ہی جاتا رہا اور غیر نبی کو نبی کا مقام دے دیا گیا۔ (مترجم) [2] تاریخ الطبری (۵؍۶۸۸)۔