کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 736
پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ ہدایت پاتے ہوں ۔ ‘‘
ائمہ میں سے امام شافعی فرماتے ہیں :
’’جو شخص علم کو بغیر دلیل کے طلب کرتا ہے اس کی مثال رات کو لکڑیاں چننے والے جیسی ہے جس کی کلائی کو سانپ ڈس لے اور اسے معلوم ہی نہ ہو۔‘‘[1]
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’لوگو خبردار! نہ میری تقلید کرنا، نہ امام مالک کی، نہ ثوری کی نہ اوزاعی کی، بلکہ احکام وہاں سے لو جہاں سے ان بزرگوں نے لیے ہیں ۔‘‘[2]
امام ابویوسف نے فرمایا:
’’لوگوں پر ہمارے اقوال کا لینا حرام ہے، جب تک وہ یہ نہ معلوم کرلیں کہ ہم نے کہاں سے لیا ہے۔‘‘[3]
ان نوجوانوں نے یہ سب پڑھا اور یہ بھی پڑھا کہ عالم کے مقابل میں ایک مقلد کی حیثیت اتنی ہی ہے جتنی کہ ایک بچے کی حیثیت اس کی ماں کے گود میں ، مقلد اور نادان جانور میں کوئی فرق نہیں ۔[4] پس ان تمام ارشادات سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ دیگر علماء سے استفادہ تک کی نفی کردی، تقلید اور اس کی مذمت میں مبالغہ سے کام لیا اور یہ گمان کر بیٹھے کہ صحابہ، تابعین اور علماء صادقین سے رہنمائی حاصل کرنا، ان کے منہج سے استفادہ کرنا، قوی دلائل پر مبنی ان کے فتاویٰ پر عمل کرنا یہ سب مذموم تقلید میں داخل ہیں اور پھر خود فتویٰ دینے کا جواز پیدا کرلیا، حالانکہ وہ ابھی اس کے اہل نہ ہوئے تھے، کتابوں پر ٹوٹ پڑے، ان سے احکامات کا استخراج کرنے لگے اور انفرادیت پر مبنی عجیب و غریب خیالات کا استنباط شروع کردیا، وہ اس میدان میں ضرورت سے زیادہ کود پڑے حالانکہ وہ اس کے شہ سوار نہ تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ حدود سے تجاوز کرگئے اور غلط راستے پر چل نکلے۔
ہمارے یہ پرجوش نوجوان دوست حقائق اور تفصیلات کی تمیز نہ کرسکے، اسی طرح جو شخص دینی علوم سے بالکل نابلد ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نوآمدہ مسائل میں اپنے علما کی تقلید کرے اور علما کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ عوام کو فتویٰ دینے کا حق نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ کیونکہ جن کلمات و معانی کی روشنی میں تحلیل و تحریم کا حکم
[1] أعلام الموقعین (۲؍۲۰۰) مطلب یہ ہے کہ اس کے علم میں رطب ویابس ملا ہوتا ہے۔
[2] أعلام الموقعین (۲؍۲۰۰) اردو ترجمہ (۱؍۴۳۶)۔
[3] أعلام الموقعین (۲؍۲۰۱)۔
[4] أعلام الموقعین (۲؍۲۰۱) جامع بیان العلم و فضلہ (۲؍۱۱۴)۔