کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 734
کی حدبندی پر مجموعی اعتبار سے کامل عبور حاصل نہیں ہوتا، مزید برآں پیش آمدہ مخصوص مسائل پر فیصلہ کن حیثیت کی حامل مخصوص شرعی نصوص سے وہ بالکل ناواقف ہوتے ہیں ، جبکہ سیاست شرعیہ سے متعلق عام منکرات اور غلطیاں جو کہ اکثر فتنوں کا سبب بنتی ہیں ، ان غلطیوں کے درجہ میں نہیں ہیں جو طہارت، نماز، حج اور عائلی نظام میں واقع ہوتی ہیں اور جن میں حق کا انحصار عموماً تفصیلی دلائل پر ہوتا ہے، بلکہ سیاست شرعیہ کے علم کا انحصار چند بنیادی معلومات پر ہے:
٭ عام ادلۂ شرعیہ اور قواعد کا علم کہ جن میں بہت سارے مسائل و جزئیات داخل ہوتے ہیں ۔
٭ مقاصد شریعت سے واقفیت۔
٭ مصالح اور مفاسد کے درمیان موازنہ کرنے کی صلاحیت۔
٭ تفصیلی دلائل کا استیعاب۔
لہٰذا کلیات عامہ سے متعلق مسائل کا سمجھنا عوام تو درکنار کم پڑھے لکھے علماء کے بھی بس کی بات نہیں ہے، اگرچہ جزئی نصوص کو وہ کسی حد تک سمجھ لیتے ہوں ، اسی طرح مقاصد شریعت سے اس وقت تک مکمل واقفیت ممکن نہیں ، جب تک کہ مجمل طور پر تمام نصوص شرعیہ اور شارع کی تصرفات پر نگاہ نہ ہو۔ مقاصد شریعت کی فقہ و بصیرت پر عبور کافی مشکل کام ہے اور یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہاں تک رسائی انھیں لوگوں کو ہوپاتی ہے جنھوں نے علم کے مدارج طے کیے ہوں ، حالات کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو اور متوقع احتمالات پر بار بار نگاہ دوڑائی ہو، پھر اسی فقہ و بصیرت کے بعد مصالح و مفاسد کے درمیان موازنہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور یہ سب کچھ بابصیرت و ماہر علمائے دین ہی کااختصاص ہے عوام کا نہیں ۔[1]
پس سیاست شرعیہ کے باب میں عوام الناس کا ناپختہ علم والے یعنی کتاب و سنت سے ناواقف علماء کے ساتھ پیش پیش رہنا مسلمانوں میں افتراق و انتشار کا سبب بنتا ہے، اس لیے کہ اگر عوام الناس کی رائے کی اگر کوئی قیادت کرنے والا نہ ہو تو وہ کسی ایک بات پر متفق ہی نہ ہوں گے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس طرح کے معاملات اہل حل وعقد کے حوالے کردیے جائیں ۔
۲۔علم بلا معلم:
انتہا پسند فکر کو تشکیل دینے میں علم بلا معلم کا بڑا دخل ہے۔ اس فکر کے حاملین علمی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں ، لیکن کسی معلم سے مدد نہیں لیتے اور نہ ہی کسی تجربہ کار عالم سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ، ان کا حال یہ ہے کہ ابھی علوم کتاب و سنت میں ان کی معلومات راسخ نہیں ہوئیں اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کے لیے احکام کا استنباط کرنے لگے، بالآخر بہک گئے، اور صحیح نتیجہ تک رسائی نہ ہوسکی، عموماً ایسی لغزش دو طرح کے نوجوانوں میں نمایاں طور پر
[1] قواعد فی التعامل مع العلماء ص (۱۲۱)۔