کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 731
لیکن اگر خوارج اور اہل بدعت امام کے خلاف بغاوت کریں تو ان کی گواہی قبول نہ کی جائے گی، اس لیے کہ یہ لوگ فاسق ہیں ۔[1] ۱۳۔ امام عادل کے لیے اپنے خونی رشتہ کے قرابت دار باغی کو قتل کردینا جائز ہے، کیونکہ وہ اسے ناحق نہیں قتل کر رہا ہے، گویا یہ قتل اس پر حد نافذ کرنے کی مشابہ ہے، تاہم اسے اس سے گریز کرنا چاہیے۔[2] ۱۴۔ اگر کسی شہر پر بغاوت کرنے والوں کا غلبہ ہو جائے اور وہ اپنے نظام کے تحت خراج، زکوٰۃ اور جزیہ وغیرہ کی وصولی کے ساتھ حدود بھی قائم کرتے ہوں ، پھر حالات بدلیں اور اہل عدل اس شہر پر قابض ہوجائیں ، تو گزشتہ اموال کی وصولی میں سے کچھ نہ لیا جائے گا، کیونکہ جنگ جمل کے بعد جب اہل بصرہ پر علی رضی اللہ عنہ کو غلبہ ملا تھا تو آپ نے ان سے ماضی کے محصولات میں سے کسی مال کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ [3] ۱۵۔ باغی و عادل کی وراثت کا حکم: کوئی باغی قاتل کسی عادل کا وارث نہیں بن سکتا، نہ ہی کوئی عادل قاتل کسی باغی کا وراث بن سکتا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْقَاتِلُ لَا یَرِثُ)) [4] ’’قاتل وارث نہیں ہوگا۔‘‘ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میں عادل کو باغی کا وارث بناتا ہوں ، لیکن باغی کو عادل کا وارث نہیں بناتا۔‘‘ ابویوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میں دونوں کو ایک دوسرے کا وارث بناتا ہوں ، کیونکہ دونوں کا قتل ان کی اجتہادی غلطی پر مبنی ہے۔‘‘[5] امام نووی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔[6] ۱۶۔ اگر اہل بغاوت کو قتل کے بغیر مات دینا ممکن نہ ہو تو انھیں قتل کیا جاسکتا ہے اور قاتل پر کوئی گناہ، ضمانت، یا کفارہ واجب نہ ہوگا، کیونکہ اس نے شرعی حکم کے مطابق اقدام کیا اور اللہ کی خاطر اسے قتل کیا، اللہ فرماتا ہے: ﴿ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ﴾ (الحجرات: ۹) ’’تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔‘‘ چنانچہ اگر کسی مسلمان پر جان لیوا حملہ ہو تو وہ اپنی دفاع میں اسے قتل کرسکتا ہے بشرطیکہ قتل کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو۔
[1] المغنی (۸؍۱۱۸) تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۳۰۱)۔ [2] المغنی (۸؍۱۱۸) تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۳۰۱)۔ [3] المغنی (۸؍۱۱۹) تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۳۰۲)۔ [4] سنن ابن ماجہ ؍ الدیات (۲؍۸۸۳) صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر (۲۱۴۰)۔ [5] الأحکام السلطانیۃ ص (۶۱)۔ [6] شرح النووی علی صحیح مسلم (۷؍۱۱۰)