کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 730
چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے آپ نے جنگ جمل کے موقع پر کہا تھا: ’’جو شخص اپنا کوئی سامان کسی ہمارے آدمی کے پاس دیکھے وہ اسے لے لے۔‘‘[1] بعد میں آپ کا یہی موقف خوارج کے لیے باعث اعتراض بن گیا تھا، وہ کہتے تھے: علی نے معاویہ اوران کے ساتھیوں سے قتال کیا، لیکن انھیں گالیاں نہ دیں اور نہ ان کا مال بطور غنیمت لوٹا، پس اگر ان کا خون حلال تھا تومال کیوں نہیں حلال ہوا؟ اور اگر مال حرام تھا تو خون بھی حرام تھا، ان سے قتال کیوں کیا؟ تب ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے مناظرہ کے دوران کے اس اعتراض کا جواب اس طرح دیا تھا کہ کیا تم اپنی ماں یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کو گالی دینا پسند کر وگے؟ اور جو کچھ ان کے علاوہ کے لیے جائز سمجھتے ہو ان کے لیے بھی جائز کرو گے؟ اگر تم یہ کہتے ہو کہ وہ تمھاری ماں نہیں ہیں تو تم کفر کا ارتکاب کرو گے اور اگر مانتے ہو کہ تمھاری ماں ہیں پھر بھی انھیں باندی بنانا چاہتے ہو تو یہ بھی کفر ہے۔[2] علامہ بن قدامہ رحمہ اللہ اس واقعہ کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ چونکہ باغیوں سے قتال کا مقصد محض انھیں پست ہمت کرنا اور حق کی طرف لوٹانا ہے اور ان سے لڑائی کفر کی بنا پر نہیں ہے، اس لیے ان کے جان و مال اور عزت و آبرو پر اتنا ہی ہاتھ اٹھایا جائے گا جتنے سے انھیں پیچھے دھکیلا جاسکے، جیسے کہ حملہ آوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے اور ان کے اموال و ذریت اپنی اصلی حالت یعنی حرمت کے حکم پر باقی ہوں گے۔[3] البتہ علی رضی اللہ عنہ کے موقف کو سامنے رکھتے ہوئے اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ان کے ہتھیاروں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے ابوالبختری سے روایت کیا ہے کہ جب اہل جمل شکست خوردہ ہوگئے تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو لشکر سے باہر ہو اسے تلاش نہ کرو اور ان کے جو ہتھیار اور سواریاں تمھیں ملیں وہ تمھاری ہیں ۔[4] اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا ان کے لشکر میں پڑے ہوئے مال کے علاوہ کسی دوسرے مال پر قطعاً ہاتھ نہ ڈالنا۔[5] ۱۱۔ باغیوں کے مقتولین کو غسل دلایا جائے گا، تکفین ہوگی اور ان پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اس لیے کہ امام شافعی اور اصحاب الرائے کے مسلک کے مطابق وہ مسلمان ہیں ۔[6] ۱۲۔ اگر بغاوت کرنے والے اہل بدعت میں سے نہ ہوں تو وہ فاسق نہیں کہے جائیں گے۔ امام المسلمین اور اہل عدل کے خلاف ان کی بغاوت ان کی اجتہادی غلطی پر محمول ہو گی اور وہ فقہائے مجتہدین کے حکم میں ہوں گے، اگر ان کا عادل فرد گواہی دے رہا ہے تو امام شافعی کے قول کے بموجب اس کی گواہی قبول کی جائے گی،
[1] المغنی ۸؍۱۱۵۔ [2] السنن الکبرٰی ؍ البیہقی (۸؍۱۷۹) خصائص أمیر المومنین ؍ نسائی ص (۱۹۷) اس کی سند حسن ہے۔ [3] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۳۰۰)۔ [4] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۲۶۳)۔ [5] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۳۰۰)۔ [6] تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۳۰۱)۔