کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 73
دوسرا باب: وفات نبوی اور سقیفہ بنو ساعدہ (۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ۱۔ مرض الموت کا آغاز: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ۱۰ ہجری میں حجۃ الوداع سے واپس ہوئے اور مدینہ میں ذوالحجہ کے بقیہ ایام اور محرم وصفر گذارے۔ لشکر کو تیار کیا اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اس کا امیر مقرر فرمایا اور انھیں بلقاء وفلسطین کی طرف کوچ کرنے کا حکم فرمایا۔ لوگوں نے تیاری کی اور ان میں مہاجرین وانصار بھی تھے۔ اس وقت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی عمر صرف اٹھارہ (۱۸) سال تھی۔ مہاجرین و انصار میں سے بعض لوگوں کو ان کی امارت پر اعتراض تھا،[1] کیونکہ وہ غلاموں میں سے کم سن تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اعتراض کو قبول نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا: ’’اگر آج یہ لوگ اسامہ کی امارت پر اعتراض کرتے ہیں تو اس سے قبل اس کے باپ زید کی امارت پر بھی اعتراض کر چکے ہیں ۔ اللہ کی قسم وہ امارت کا مستحق تھا اور وہ میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور زید کا فرزند اسامہ ان کے بعد میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے ہے۔‘‘[2] لوگ جہاد کی تیاری میں تھے اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز ہوا۔[3] یہ واقعہ یوم دوشنبہ۱۲ ربیع الاوّل۱۱ہجری بعد از زوال[4] پیش آیا، اس وقت آپ کی عمر تریسٹھ (۶۳) سال تھی۔[5] آج کا دن مسلمانوں کے لیے انتہائی دلفگار، تاریک اور وحشت ناک تھا اور بشریت کے لیے بڑی آزمائش کی گھڑی تھی، جس طرح کہ آپ کی ولادت کا دن سب سے زیادہ سعادت افزا تھا۔[6]
[1] دیکھیے: السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: ۲/۵۵۲۔ [2] البخاری: فضائل اصحاب النبی: ۴۴۶۹، ۴/ ۲۱۳۔ [3] ۲۹ صفر ۱۱ ہجری بروز دو شنبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ میں بقیع تشریف لے گئے، واپسی پر راستے ہی میں درد سر شروع ہو گیا اور حرارت اتنی تیز ہو گئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔ یہ آپ کے مرض الموت کا آغاز تھا۔ (الرحیق المختوم: ۶۶۴) (مترجم) [4] البدایۃ والنہایۃ: ۴/۲۳۳۔ [5] مسلم: الفضائل ۴/۸۲۵، البخاری: المغازی ۴۴۶۶۔ [6] السیرۃ النبویۃ للندوی: ۴۰۴۔