کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 729
کے بارے میں دیکھا جائے گا کہ اگر وہ ان کے صدقات اور اموال فے کا حصہ ہے تو انھیں واپس نہیں کرے گا، بلکہ صدقات کو صدقات کے مستحقین میں اور مال فے کو اس کے مستحقین میں تقسیم کردے گا اور اگر وہ مال خالص ان کی کمائی کا ہے تو امام اس پر قابض نہ ہوگا، بلکہ اسے انھیں واپس کردے گا۔[1] اس لیے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اہل جمل کا مال اپنے لیے حلال نہ کیا تھا۔ ۷۔ اگر بغاوت کرنے والے کسی معقول تاویل کے ذریعے سے امام سے بغاوت کرتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ مراسلات کرے گا، اگر وہ اپنے اوپر کسی ظلم کی نشان دہی کرتے ہیں تو امام اسے ان سے دور کرے اور اگر کسی شبہہ کا ذکر کرتے ہیں تو اسے واضح کرے، جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے شبہات کا ازالہ کیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے خوارج مسلمانوں کی جماعت میں واپس لوٹ آئے تھے۔[2] پس اگر شبہات کی وضاحت کے بعد وہ لوٹ آتے ہیں تو بہترہے ورنہ ان کے خلاف قتال کرنا امام اور مسلمانوں پر واجب ہے۔[3] ۸۔ اگر باغی لوگ بظاہر امام کی اطاعت کر رہے ہوں اور الگ کسی مقام پر گروہ بندی کی شکل میں نہ ہوں اور انھیں حراست میں لانا اور گرفتار کرنا آسان ہو، تو ان سے قتال نہیں کیا جائے گا، بلکہ گرفتاری کے ذریعے سے انھیں محکمہ عدل کے حوالے کیا جائے گا اور وہ مناسب فیصلہ صادر کرے گا، لیکن ان کو تمام شرعی و انسانی حقوق و حدود حاصل ہوں گے۔[4] ۹۔ باغیوں سے اس نوعیت کا قتال جائز نہیں ہے جس میں عام جان و مال کا اتلاف ہو مثلاً ان کی آبادی میں آگ لگا دینا، یا ان پر منجنیق سے گولے برسانا، ان کے درختوں اور رہائش گاہوں کو جلانا یا برباد کردینا جب کہ کفار و مشرکین کی جنگ میں یہ جائز ہے کیونکہ دار الاسلام میں یہ ممنوع اگرچہ ان کے چند افراد رہ ہی جائیں ، البتہ اگر ضرورت ایسی آپڑے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو مثلاً باغی لوگ قلعہ بند ہو جائیں اور ہتھیار نہ ڈالیں تو امام کے لیے جائز ہے کہ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمہم اللہ کے قول کے مطابق ان پر منجنیق و آگ کی بارش کردیے۔[5] ۱۰۔ باغیوں کے مال کو مال غنیمت بنانا اور ان کی ذریت کو قید کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِیٍٔ مُسْلِمٍ اِلَّا بِطِیْبِ نَفْسٍ مِنْہٗ۔))[6] ’’کسی مسلمان آدمی کا مال بغیر اس کی خوش دلی کے لینا جائز نہیں ہے۔‘‘
[1] الأحکام السلطانیۃ ص (۶۰) تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۲۹۸)۔ [2] السنن الکبریٰ ؍ البیہقی (۸؍۱۸۰)۔ [3] مجموع الفتاوٰی (۴؍۴۵۰)۔ [4] الاحکام السلطانیۃ ص (۵۸)۔ [5] المغنی ؍ ابن قدامہ (۸؍۱۱۰)۔ [6] سنن الدار قطنی (۳؍۲۶) شیخ البانی نے ارواء الغلیل حدیث نمبر (۱۴۵۹) میں اس کی تصحیح کی ہے۔