کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 728
ان کے زخم خوردہ افراد پر وار کرنا، اور ان کے قیدی کو قتل کرنا جائز نہیں ہے جب کہ مشرکین اور مرتدین کے زخمیوں پر وار کرنا اور ان کے قیدیوں کو قتل کرنا جائز ہے، چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے جنگ جمل والے دن فرمایا: کسی بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرو، کسی زخمی پر حملہ نہ کرو اور جو ہتھیار ڈال دے اسے امان ہے۔[1] ’’عبدالرزاق‘‘ کی روایت میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے منادی کو نداء لگانے کا حکم دیا، چنانچہ اس نے بصرہ والے دن اعلان کیا کہ کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، نہ کسی زخمی پر قاتلانہ حملہ کیا جائے، نہ کسی قیدی کو قتل کیا جائے، جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیتا ہے یا ہتھیار ڈال دیتا ہے اسے امان ہے، آپ نے ان کے چھوڑے ہوئے مالوں میں سے کچھ نہ لیا۔[2] اور جنگ جمل میں اعلان کروایا کہ کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرو، کسی زخمی پر قاتلانہ حملہ نہ کرو، کسی قیدی کو قتل نہ کرو اور عورتوں کو نظر انداز کرو اگرچہ وہ تمھیں برا بھلا کہیں اور تمھارے امراء کو گالیاں دیں ، ہمیں اپنے دور جاہلیت کی تہذیب یاد ہے کہ جب آدمی عورت کو لاٹھی اور ڈنڈے سے مارتا تھا تو اس کو اور اس کی آنے والی اولاد کو عار دلایا جاتا تھا۔[3] ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ میں صفین میں موجود تھا، وہ لوگ (اصحاب علی) کسی زخمی پر حملہ نہ کرتے تھے اور نہ کسی بھاگنے والے کو قتل کرتے تھے اور نہ ہی کسی مقتول کو پھانسی دیتے تھے۔[4] ۴۔ باغیوں کا قیدی حالتِ قید میں باغی شمار کیا جائے گا، اگر اس کے بارے میں یہ اطمینان ہو کہ وہ قتال میں شریک نہ ہوگا تو اسے چھوڑ دیا جائے اور جس کے بارے میں مکمل اطمینان نہ ہو اسے جنگ کے آخری وقت تک قیدمیں رکھاجائے، پھر آزاد کردیا جائے، اس کے بعد اسے قید میں ڈالنا ضروری نہیں ہے، جب کہ کافر قیدی کو قید میں رکھا جاسکتا ہے۔[5] ۵۔ باغیوں سے قتال کرنے کے لیے کسی بھی مشرک سے خواہ وہ ذمی ہو یا معاہد مدد نہیں لی جائے گی، جب کہ مرتدین، کفار اور محاربین سے لڑنے کے لیے مدد لینی جائز ہے۔[6] ۶۔ ان سے نہ کوئی عارضی مصالحت ہو اور نہ مال کے بدلے مستقل جنگ بندی کا اعلان، اگر امام وقت عارضی مصالحت کرلیتا ہے تو اس کا اعتبار نہ ہوگا، اگر بروقت مقابلہ کرنے سے کمزور ہے تو اپنی قوت اکٹھا کرے گا اور پھر مقابلہ میں اترے گا اور اگر مال کے بدلے مستقل جنگ بندی پر صلح کیا ہے تو یہ صلح غیر معتبر ہوگی اور مال
[1] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۰؍۲۳۶) فتح الباری (۱۳؍۵۷) اس کی سند صحیح ہے۔ [2] مصنف عبدالرزاق (۱۰؍۱۲۳، ۱۲۴) تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۲۹۶)۔ [3] نصب الرایۃ (۳؍۴۶۳)۔ [4] المستدرک (۲؍۱۵۵) اس کی سند حسن ہے اور ذہبی نے موافقت کی ہے۔ [5] الأحکام السلطانیۃ ص (۶۰)۔ [6] الأحکام السلطانیۃ ص (۶۰)۔