کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 727
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی جنگوں سے مستنبط ہونے والے فقہی مسائل امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو اپنی علمی گہرائی اور فقہی ظرف نگاہی کی بنا پر یہ ملکہ حاصل تھا کہ واقعات و حوادث کی روشنی میں شرعی قواعد و احکامات کا استنباط کرسکیں ، چنانچہ آپ نے ائمۃ المسلمین سے بغاوت کرنے والوں سے قتال کے شرعی اصول و ضوابط وضع کیے اور پھر ائمہ سنت و فقہائے شریعت نے بغاوت کرنے والوں کے بارے میں آپ کے موقف سے استفادہ کیا اور اس سلسلے میں تفصیل سے فقہی قواعد و احکام کو مرتب و مدون کیا، یہاں تک کہ بیشتر اہل علم یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر علی رضی اللہ عنہ کی اپنے مخالفین سے جنگ نہ ہوئی ہوتی تو اہل قبلہ (مسلمانوں ) سے قتال کے بارے میں شرعی حکم معدوم ہوتا۔[1]یہ بات خود علی رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے اگر میں لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجاتا تو آج ان کے ساتھ یہ کردار کون ادا کرتا۔[2] اور احنف نے جب علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے علی، بصرہ میں ہماری قوم کے لوگ سوچتے ہیں کہ اگر آپ کل ان پر غلبہ پاجائیں گے تو ان کے مردوں کو قتل کردیں گے اور عورتوں کو قیدی بنالیں گے، تو آپ نے جواب دیا: مجھ جیسے لوگوں سے یہ خوف کبھی نہ طاری ہو، کیا کفار اور مرتدین کے علاوہ کسی اور کے لیے بھی یہ جائز ہے؟ بہرحال آپ کے مذکورہ اقوال و موقف کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کفار و مرتدین کے بالمقابل اہل قبلہ سے قتال کرنے میں کئی اعتبار سے فرق ہے، جن کی تفصیل اس طرح ہے: ۱۔ باغی مسلمانوں سے قتال کا مقصد صرف ان کی گوشمالی ہو نہ کہ انھیں جان سے مارنا، اس لیے کہ اصلاً انھیں قتل کرنا نہیں ، بلکہ صرف یہ مقصد ہوتا ہے کہ وہ اطاعت کی طرف لوٹ آئیں اور شرانگیزی نہ کریں ، جب کہ مشرکین اور مرتدین کو قصداً جان سے مارنا مقصود و مطلوب ہوتا ہے۔[3] ۲۔ اگر بغاوت کرنے والوں کے شانہ بشانہ ان کے غلام، بچے اور عورتیں بھی لڑنے میں شریک ہوں تو سب کے سب بالغ آزاد مرد کے حکم میں ہیں ، آگے بڑھنے کی صورت میں ان سے قتال کیا جائے اور پیچھے ہٹنے کی صورت میں انھیں چھوڑ دیا جائے۔اس لیے کہ ان سے قتال کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان کی ایذا رسانیوں کا ازالہ ہوجائے، جب کہ مرتدین و کفار اگر برسرپیکار ہیں تو آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے، دونوں حالتوں میں انھیں قتل کیا جائے گا۔[4] ۳۔ اگر بغاوت کرنے والے کسی بھی سبب سے قتال سے رک جائیں ، خواہ اطاعت قبول کرکے یا ہتھیار ڈال کرکے، یا ہزیمت اٹھا کر، یا زخموں کی تاب نہ لاکر، یا کسی بیماری کی وجہ سے یا قید کے خوف سے، بہرصورت
[1] التمہید؍ الباقلانی ص (۲۹۹) تحقیق مواقف الصحابۃ (۲؍۲۹۵)۔ [2] مصنف عبدالرزاق (۱۰؍۱۲۴)۔ [3] المغنی (۸؍۱۰۸، ۱۲۶)۔ [4] المغنی (۸؍۱۱۰) الأحکام السلطانیۃ ص (۶۰)۔