کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 726
﴿ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴿٢٦﴾ الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّـهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴾ (البقرۃ:۲۶،۲۷) ’’اور وہ اس کے ساتھ فاسقوں کے سوا کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو، اسے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا کہ اسے ملایا جائے اور زمین میں فساد کرتے ہیں ، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں ۔‘‘ بہرحال سعد رضی اللہ عنہ انھیں فاسق کا نام دیتے تھے۔[1] سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک روایت ہے کہ جب آپ سے ان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ ایسی قوم ہے جو ٹیڑھی ہوگئی تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔[2] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ لوگ کافر ہیں ؟ آپ نے فرمایا: انھوں نے کفر کی وجہ سے ساتھ چھوڑا، پھر پوچھا گیا، کیا وہ منافق ہیں ؟ آپ نے فرمایا: منافق تو اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں ، پھر آپ سے پوچھا گیا، تب وہ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا: وہ ایک قوم تھی جس نے ہم سے بغاوت کی اور ہم نے ان سے قتال کیا اور دوسری روایت میں یہ جواب اس طرح ہے کہ ایک قوم ہے جس نے ہم سے بغاوت کی، پھر ہماری ان کے خلاف مدد کی گئی۔ اور تیسری روایت میں ہے کہ وہ ایک قوم ہے جو فتنہ میں مبتلا ہوئی اور وہ اسی میں گونگے بہرے ہوگئے۔[3] اسی طرح آپ نے اپنی فوج اور پوری امت مسلمہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’ اگر بغاوت کرنے والے امام عادل کی مخالفت کریں تو ان سے قتال کرو اور اگر امام ظالم کی مخالفت کریں تو ان سے قتال نہ کرو کیونکہ انھیں کہنے کا حق ہے۔‘‘[4] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک خوارج سے اور جنگ جمل و جنگ صفین میں مسلمانوں سے لڑائی کے درمیان کافی فرق محسوس کیا جاسکتاہے، جنگ جمل و جنگ صفین کی لڑائی پر آپ رنجیدہ ہوئے اور ندامت کے آنسو گرائے، لیکن خوارج کے خلاف لڑنے میں آپ کو بہت فرحت و سرور حاصل ہوا۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نص اور اجماع نے دونوں میں فرق کردیا تھا، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح فرمان کے مطابق خوارج سے قتال کیا تھا اور اس پر شاداں و نازاں تھے، اور صحابہ میں سے کسی نے اس میں آپ کی مخالفت نہ کی، جب کہ جنگ صفین میں اس جنگ کے تئیں آپ نے خود اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اس پر رنجیدہ رہے۔[5]
[1] صحیح البخاری مع الفتح (۵؍۸۴۲)۔ [2] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۳۲۴، ۳۲۵) الاعتصام ؍ الشاطبی (۱؍۶۲)۔ [3] مصنف عبدالرزاق (۱۰؍۱۵۰)، مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۳۳۲) بسند صحیح۔ [4] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۳۲۰) فتح الباری (۱۲؍۳۰۱) طبری میں اس کی صحیح سند مروی ہے۔ [5] مجموع الفتاوٰی (۲۸؍۵۱۶)۔