کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 724
مذکورہ اوصاف والے آدمی کا نام کیا تھا؟ اس سلسلے میں جن لوگوں نے اس کا تعارف حرقوص بن زہیر السعدی کی شکل میں کرایا ہے انھوں نے غلطی کی ہے۔[1] اس لیے کہ حرقوص ایک مشہور و معروف آدمی تھا اور اسلامی فتوحات میں اس کا کردار رہا ہے، اس نے عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف شورش میں حصہ لیا تھا اور معرکۂ جمل الصغریٰ کے بعد جس میں زبیر اور طلحہ نے بصرہ میں قاتلین عثمان کو قتل کیا تھا وہ میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا، پھر بعد میں یہی حرقوص خوارج کے چند نامور سرداروں میں سے ہوگیا۔[2] ہاں اتنا ضرور ہے کہ ایک روایت میں اس کا نام ’’حرقوس‘‘ یعنی (س) کے ساتھ وارد ہے، اس کی ولدیت بھی نامعلوم ہے اور ایک روایت میں اس کا نام ’’مالک‘‘ آیا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے حکم کے بموجب جنگ ختم ہونے کے بعد اسے تلاش کیا گیا اور آپ کے پاس لایا گیا، تو آپ نے فرمایا: اللہ اکبر! کیا تمھیں کوئی اس کے باپ کا نام بتانے والا نہیں ہے، تب لوگ کہنے لگے کہ یہ ’’مالک‘‘ ہے یہ ’’مالک‘‘ ہے، علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کس کا لڑکا، تو اس کے باپ کو کوئی نہ بتا سکا۔[3]
مورخ طبری نے ایک روایت تصحیح کے ساتھ نقل کی ہے کہ پستان والے آدمی کا نام نافع تھا اور اسی طرح کی روایت مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن ابوداؤد میں بھی وراد ہے لیکن دونوں کی سندیں ایک ہیں ، اس طرح تینوں مصادر میں ایک ہی روایت ایک ہی سند سے مل رہی ہے۔[4]
علی رضی اللہ عنہ خوارج کی مبتدعانہ فکر کے آغاز ہی سے ان کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے اور بیشتر گفتگو میں پستان والے آدمی کا ذکر ضرور کرتے اور یہ کہتے کہ جن لوگوں میں یہ پایا جائے وہ ہی خوارج ہیں ، پھر آپ اس کے دیگر اوصاف کا ذکر کرتے۔ اس طرح فیصلہ کن جنگ کے اختتام پر علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ ناقص الید آدمی کی لاش تلاش کرو، اس لیے کہ مخالفین میں اس کا وجود ہی ہماری حقانیت اور درستگی کی دلیل ہے۔ کافی تلاش و جستجو کے بعد وہ لاش آپ کو ملی بایں طور کہ آپ نہر ’’نہروان‘‘ کے کنارے کئی لاشوں کے پاس سے گزرے، جو ایک دوسرے کے اوپر پڑی ہوئی تھیں ، آپ نے فرمایا: انھیں الگ الگ کرو، دیکھاگیا تو سب سے نیچے زمین پر اسی ناقص الید کی لاش تھی، آپ نے برجستہ اللہ اکبر کہا اور فرمایا: اللہ نے سچ کہا اور اس کے رسول نے تبلیغ کا حق ادا کردیا، پھر آپ نے سجدۂ شکر ادا کیا اور آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگوں نے بھی سجدہ شکر ادا کیا اور ان کے چہرے خوشیوں سے بھر گئے۔[5]
۴۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا خوارج سے برتاؤ:
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے جنگ سے پہلے اور بعد میں خوارج کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ کیا، جونہی جنگ ختم
[1] الملل و النحل (۱؍۱۱۵)۔
[2] فتح الباری (۱۲؍۲۹۲) الإصابۃ (۱۵؍۱۳۹)۔
[3] الفتح الربانی علی مسند الإمام احمد (۲۳؍۱۵۵) اس کی سند حسن ہے۔ نیز البدایۃ والنہایۃ (۷؍۲۹۴، ۲۹۵)۔
[4] خلافۃ علی بن أبی طالب ؍ عبدالحمید ص ۳۳۴۔
[5] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۳۱۷، ۳۱۹) اس کی سند صحیح ہے۔