کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 723
ہر چند کہ خوارج کی کارستانیاں اور گھناؤنی حرکتیں طول پکڑ رہی تھیں ، لیکن علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کا آغاز نہ کیا، بلکہ ان کے پاس اپنا قاصد بھیجا کہ وہ مقتول کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں تاکہ ان سے قصاص لیا جاسکے، اس کے جواب میں انھوں نے غرور اور سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ہم سب قاتل ہیں ۔[1] تب علی رضی اللہ عنہ نے جس فوج کو محرم ۳۸ھ میں اہل شام سے لڑنے کے لیے تیار کیا تھا، اسے لے کر خوارج کی طرف چل پڑے۔[2] اورنہر ’’نہروان‘‘ کے مغربی ساحل پر فوج اتاردی، جب کہ شہر نہروان کے بالمقابل مشرقی جانب میں خوارج کا پڑاؤ تھا۔[3] ۲۔ جنگ کا آغاز: جب خوارج نے علی رضی اللہ عنہ کی طرف پیش قدمی کی، تو علی رضی اللہ عنہ نے تیر انداز شہ سواروں کو آگے بڑھایا، ان کے پیچھے پاپیادہ دستوں کی صف بندی کی اور اپنی فوج سے کہتے رہے کہ ’’تم اس وقت تک اپناہاتھ روکے رکھنا جب تک کہ وہ آغاز نہ کردیں ، پھر خوارج لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ، جنت کی طرف بڑھو، جنت کی طرف چلو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے تیرانداز شہ سواروں پر حملہ آور ہوئے، شہ سوار دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ایک میمنہ کی طرف سمٹ گیا اور ایک میسرہ کی طرف اور جب یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی فوج کے گھیرے میں آگئے تو تیر اندازوں نے ان پر تیروں کی بارش شروع کردی، ان کے چہروں کو چھلنی کردیا، میمنہ اور میسرہ سے شہ سوار پل پڑے، پھر بقیہ فوج نے نیزوں اور تلواروں سے انھیں موت کے گھاٹ سلا دیا اور گھوڑوں کے کھُروں کے نیچے وہ خوب روندے گئے، ان کے تمام قائدین یعنی عبداللہ بن وہب، حرقوص بن زہیر، شریح بن اوفیٰ اور عبداللہ بن سنجرہ السلمی قتل کیے گئے۔[4] ۳۔ پستان والا، یا ناقص الید شخص کون تھا؟ اور اس کے قتل سے علی رضی اللہ عنہ کی فوج پر کیا اثر پڑا؟ پستان والا آدمی کون تھا؟ اس کی شخصیت کا تعین مختلف روایات مختلف انداز میں کرتی ہیں ، ان میں کچھ روایات سنداً ضعیف ہیں اور کچھ قوی ہیں ، چنانچہ احادیث نبویہ میں اس پستان والے شخص کے بارے میں متعدد اوصاف کا ذکر ہے، مثلاً وہ سیاہ فام[5] تھا، اور دوسری روایت کے مطابق وہ حبشی تھا، اس کا ہاتھ ناقص تھا، بایں طور کہ وہ بے حد چھوٹا تھا، بس اتناہی کہ جتنا کندھے اور بازو کے درمیانی لمبائی ہوتی ہے، گویا کہنی سے نیچے کا ہاتھ نہیں تھا اور بازو کا سر یعنی آخری حصہ سر پستان جیسا تھا، اس پر سفید بال اُگے ہوئے تھے، بازو بھی ایسا ڈھیلا ڈھالا اور گوشت سے پُر کہ جیسے اس میں کوئی ہڈی نہ ہو، اس میں ٹھہراؤ نہیں تھا، ادھر سے اُدھر ہوتا رہتا تھا اور ہاتھ کے متعلق جو تین مختلف الفاظ: مخدج الید، مودون الید یا مثدون الید، وارد ہیں تو یہ سب ایک ہی معنی میں ہیں یعنی وہ ہاتھ کا ناقص تھا۔[6]
[1] مصنف ابن أبی شیبۃ (۱۵؍۳۰۸، ۳۰۹) اس کی سند صحیح ہے۔ [2] أنساب الأشراف (۲؍۶۳) اس کی سند میں مجہول راوی ہیں ، دیکھئے: خلافۃ علی ؍عبدالحمید ص(۳۲۲)۔ [3] تاریخ بغداد (۱؍۲۰۵، ۲۰۶)۔ [4] تاریخ الخلافۃ الراشدۃ ؍ محمد کنعان ص (۴۲۵)۔ [5] مصنف عبدالرزاق (۱۰؍۱۴۶)۔ [6] النہایۃ فی غریب الحدیث (۱؍۱۲، ۱۳) فتح الباری (۱۲؍۲۹۴، ۲۹۵)۔