کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 721
کریں گے ورنہ ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں ، اللہ تعالیٰ خائنوں کو پسند نہیں کرتا، علی رضی اللہ عنہ ان کا خط پڑھ کر بہت مایوس ہوئے، آپ نے انھیں چھوڑ کر بقیہ لوگوں کو اپنے ساتھ لیا اور اہل شام سے جنگ کے لیے نکل جانے ہی کو مناسب سمجھا، واضح رہے کہ خوارج کی جانب سے علی ( رضی اللہ عنہ ) کی تکفیر، اور ان سے توبہ کے مطالبہ کا اعلان ان روایات سے ثابت نہیں ہوتا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ روایات علی وعثمان ( رضی اللہ عنہما ) کی تکفیر اور اس مسئلہ کو لے کر دیگر مومنوں کو آزمائش میں ڈالنے کی ان کی روش کے موافق ہے۔‘‘ [1]
معرکۂ نہروان ۳۸ھ
۱۔ سبب معرکہ:
یہ بات گزر چکی ہے کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کو ان کے اپنے نظریات پر اس شرط کے ساتھ باقی رہنے دیا تھا کہ وہ ناحق کسی کا خون نہ بہائیں گے، کسی عام آدمی کو خوف زدہ نہ کریں گے، اور نہ کسی مسافر کا راستہ روکیں گے، اگر ان شرائط کی مخالفت ہوئی تو پھر جنگ ہی ہوگی۔ لیکن خوارج نے اپنے مخالفین کی تکفیر کے عقیدہ کے پیش نظر اپنے مخالف کے خون اور مال کو حلال سمجھا اور مسلمانوں کا ناحق خون بہانے کا سلسلہ شروع کردیا، یوں تو ان کے ارتکاب جرائم اور معاہدہ کی خلاف ورزیوں سے متعلق متعدد روایات وارد ہیں ، لیکن سب سے صحیح روایت وہ ہے جسے چشم دیدگواہ پیش کر رہا ہے، جو پہلے خارجی تھا لیکن پھر اس سے توبہ کرلی، اس کا بیان ہے کہ میں نہر والوں کے ساتھ تھا، لیکن ان کی حرکتیں مجھے ناپسند تھیں ، تاہم میں نے اپنے ناپسندیدگی کو اس ڈر سے چھپایا کہ کہیں یہ لوگ مجھے قتل نہ کردیں ، چنانچہ جب میں ان کی ایک جماعت کے ساتھ تھا، ہم ایک گاؤں کے پاس گئے، ہمارے اور اس گاؤں کے درمیان ایک نہر حائل تھی، اچانک ایک آدمی اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے اور انتہائی گھبرایا ہوا گاؤں سے باہر نکلا۔ ہماری جماعت کے لوگوں نے کہا: شاید تم ہم سے گھبرا گئے؟ اس نے کہا: ہاں ، انھوں نے کہا: گھبراؤ نہیں ۔ دل میں مَیں نے کہا: یقینا یہ لوگ اسے پہچانتے ہوں گے اور میں اسے نہیں پہچانتا، پھر انھوں نے کہا: کیا تم صحابی رسول خباب کے بیٹے ہو؟ اس نے کہا: ہاں ، پھر انھوں نے کہا: کیا تمھارے پاس کوئی ایسی حدیث ہے جو تمھارے باپ کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو، انھوں نے کہا: ہاں ، میں نے اپنے باپ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فتنہ کا ذکر کیا اور فرمایا:
(( اَلْقَاعِدُ فِیْہَا خَیْرٌ مِّنَ الْقَائِمِ، وَ الْقَائِمِ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِیْ، وَ الْمَاشِیْ فِیْہَا خَیْرٌ مِّنَ السَّاعِیْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَکُوْنَ عَبْدَاللّٰہِ الْمَقْتُوْلَ فَـلَا تَکُنْ عَبْدُاللّٰہِ
[1] خلافۃ علی بن أبی طالب ؍ عبدالحمید علی ص ۳۱۹۔