کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 720
مسلمانوں کے درمیان بغاوت کی ہوا پھیلائی جائے اور راہ ہموار کرنے کے لیے پہلے مدائن چلیں کہ جہاں سے لوگوں کی پشت پناہی مل سکے، اور وہاں کے لوگوں کو اپنی حمایت میں لایا جائے، پھر بصرہ میں جو لوگ ان کے ہم خیال اور بااثر ہیں انھیں یہ لوگ بلائیں اور سب کا اجتماع ہو۔ زید بن حصن الطائی نے کہا: آپ لوگ مدائن پر قابو نہیں پاسکو گے، وہاں ایک لشکر موجود ہے جو تمھیں اندر نہیں جانے دے گا، لہٰذا ’’جوخی نہر‘‘ کے پل کے پاس اپنے بھائیوں کو جمع ہونے کے لیے کہو اور کوفہ سے جماعتوں کو شکل میں نہ نکلو، بلکہ ایک ایک کرکے جاؤ، تاکہ تمھارے ارادہ کو کوئی سمجھ نہ سکے، چنانچہ انھوں نے اہل بصرہ وغیرہ کے اپنے ہم فکر لوگوں کے نام یہ عام خط جاری کیا کہ ہم سب لوگ متحد ہونا چاہتے ہیں ، اس لیے نہر کے پاس سب لوگ اکٹھا ہوں ، پھریہ بدباطن لوگ بھی خفیہ انداز میں ایک ایک کرکے نکلنے لگے، مبادا کہیں کوئی انھیں روک نہ دے، انھوں نے اپنے باپوں ، بزرگوں ، ماموؤں ، پھوپھیوں و ممانیوں اور تمام قرابت داروں کو پیچھے چھوڑا اور خود آگے بڑھے، اپنی جہالت، کم علمی اور ناسمجھی کی بناپر ان کایہ عقیدہ تھا کہ ہمارا یہ اقدام رَبُّ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِکی رضا کا باعث ہے، حالانکہ یہ نہیں جانا کہ یہ رضا نہیں بلکہ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اور سب سے مہلک اور عظیم غلطی ہے اور یہ نہ سوچا کہ یہ اس ابلیس لعین کا دھوکا ہوسکتا ہے جو آسمان سے دھتکارا ہوا ہے، اور ہمارے باپ آدم پھر ان کی ذریت جب تک زندہ ہے سب کے درمیان عداوت کی بیج ڈالنے والا ہے۔ بہرحال خروج کے وقت راستے میں ایک جماعت اپنی اولادوں ، بھائیوں اور قرابت داروں سے ملی اور انھیں ڈانٹا، پھٹکارا اور واپس ہوجانے کو کہا، چنانچہ ان میں سے کچھ تو رک گئے اور استقامت اختیار کی اور کچھ بھاگ کر خوارج سے آملے اور قیامت تک کے لیے نقصان اٹھایا، اس طرح بقیہ خوارج بھی مقررہ جگہ پر پہنچے اور اہل بصرہ وغیرہ میں سے جس کے پاس بھی خطوط گئے تھے سب کے سب ’’نہروان‘‘ میں اکٹھا ہوئے اور ان کی ایک بڑی قوت اور شوکت ابھر کر سامنے آئی۔[1] اِدھر حکمین جب کسی فیصلہ کن نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تو علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے نام جو کہ نہروان میں جمع ہوچکے تھے ایک خط بھیجا کہ حکمین کسی فیصلہ کن نتیجہ پر نہ پہنچ سکے اور معاملہ ختم ہوگیا ہے، لہٰذا تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ اور ہمارے ساتھ چل کر اہل شام سے لڑائی کرو، لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جب تک آپ اپنے کفر کا اقرار نہ کرلیں اور اس سے توبہ نہ کرلیں ہم نہیں آئیں گے۔ آپ نے اس سے انکار کیا۔[2] ایک اور روایت میں ہے کہ انھوں نے جواباً یہ خط بھیجا: ’’اما بعد!تم اپنے رب کے لیے ناراض نہیں ہوئے ہو، بلکہ اپنی ذات کے لیے ناراض ہوئے، لہٰذا اگر تم اقرار کرتے ہو کہ جو کچھ ہوا کفر تھا اور توبہ کرلیتے ہو تو ہم اپنے اور تمھارے بارے میں دوبارہ غور
[1] البدایۃ و النہایۃ (۷؍۳۱۲، ۳۱۳)۔ [2] أنساب الإشراف (۲؍۶۳) اس کی سند میں ضعف ہے تاہم اس کے دیگر شواہد ہیں ۔