کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 719
اور فرمایا: ﴿ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ (المائدۃ: ۴۵) ’’اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴾ (المائدۃ: ۴۷) ’’اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ نافرمان ہیں ۔ ‘‘ پھر کہا: میں اپنے ہم قبلہ بھائیوں کے بارے میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ نفس پرستی میں مبتلا ہیں ، انھوں نے کتاب کے فیصلہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ قول و عمل میں ظلم سے کام لیا ہے، لہٰذا ان سے جہاد کرنا مومنوں پر واجب ہے۔ یہ سن کر ان میں کا ایک آدمی جس کا نام عبداللہ بن شجرہ السلمی تھا، رونے لگا، پھر اس نے حاضرین کو علی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سیف و سنان کے ساتھ نکل پڑنے کے لیے ابھارا اور کہا: ان کے چہروں اور پیشانیوں پر تلواریں برساؤ تاوقتیکہ رحمن رحیم کی اطاعت غالب آجائے، اگر تم کامیاب ہوگئے اور وہ تمھاری طلب کے مطابق اللہ کی اطاعت کے لیے جھک گئے تو اللہ تمھیں اپنے اطاعت گزار اور فرماں بردار بندوں کا اجر دے گا اور اگر تم ناکام ہوگئے تو اللہ کی رضا اور اس کی جنت سے افضل کیا چیز ہے۔[1] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے، خوارج کے دل و دماغ پر شیطان کے مذکورہ واہموں کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ بھی انسانوں کی ایک قسم ہے، بنو آدم کی ایک عجیب و غریب قسم، اللہ پاک و برتر ہے کہ اس نے اپنے ارادہ، حکمت اور تقدیر کے مطابق اپنی مخلوقات کو متنوع بنایا، خوارج کے بارے میں بعض اسلاف نے کتنی عمدہ بات کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ﴿١٠٣﴾ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴿١٠٤﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ﴾ (الکہف:۱۰۳ تا ۱۰۵) میں خوارج مراد ہیں ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’کہہ دے کیا ہم تمھیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں ۔وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں ۔یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے، سو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ جہلاء، گمراہ، اور اقوال و افعال کے بدبخت لوگ اس بات پر متفق ہوگئے کہ
[1] البدایۃ و النہایۃ (۷؍۳۱۲)۔