کتاب: خلفائے رسول ص شخصیت،حالات زندگی،عہد خلافت - صفحہ 717
حالانکہ میرے پاس اس کی شہادت موجود ہے، جس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں قریش کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر رہے تھے، ہم آپ کے ساتھ تھے، بالکل معاہدہ تحریر کیے جانے کے وقت سہیل بن عمرو (قریش کا ایلچی) آپہنچا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا: ((بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ)) اس پر سہیل نے اعتراض کیا، اور کہا کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہ لکھو، آپ نے پوچھا: پھر کیا لکھوانا چاہتے ہو، اس نے کہا: بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ لکھو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: یہی لکھ دو، چنانچہ میں نے لکھ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اُکْتُبْ ہٰذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ)) لکھو کہ ’’یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی ہے۔‘ سہیل نے کہا: اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو آپ سے جنگ کیوں کرتے، چنانچہ یہی لکھا گیا کہ یہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے اہل قریش سے مصالحت کی ہے اور اے لوگو! اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں کہتا ہے: ﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ﴾ (الأحزاب: ۲۱)[1] ’’بلاشبہ یقینا تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔‘‘ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ خطاب سن کر خوارج کو اب یقین ہوچکا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ ابوموسیٰ اشعری کو بحیثیت ’’حکم‘‘ یعنی فیصل (اپنا نائب) ماننے کا عزم کرچکے ہیں ، چنانچہ انھوں نے اپنا مطالبہ یعنی ’’انکار تحکیم‘‘ کو پھر دہرایا، لیکن علی رضی اللہ عنہ نے اس سے انکار کردیا اور واضح طریقہ پر بتادیا کہ اب ہمارا یہ اقدام غداری، وعدہ خلافی اور عہد وپیمان کو توڑنے کے مترادف ہے، ہمارے اور ان کے معاہدے تحریر میں درج ہیں اور اللہ فرماتا ہے: ﴿ وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّـهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّـهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا﴾ (النحل: ۹۱) ’’اور اللہ کا عہد پورا کرو جب آپس میں عہد کرو اور قسموں کو ان کے پختہ کرنے کے بعد مت توڑو، حالانکہ یقینا تم نے اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنایا ہے۔ ‘‘ صورت حال کو بھانپ کر خوارج نے علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑنے اور اپنا ایک الگ امیر منتخب کرنے کا تہیہ کرلیا، چنانچہ وہ سب عبداللہ بن وہب الراسبی کے گھر میں جمع ہوئے، اس نے ان کے درمیان ایک بلیغ خطبہ دیا، انھیں دنیا بے زاری، آخرت طلبی اور حصول جنت کی ترغیب دلائی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارا اور کہا: ہمیں اپنے بھائیوں کو لے کر اس ظالم بستی سے کسی دوسری زر خیز زمین، یا پہاڑی علاقوں ، یا ایسے شہروں کی طرف نکل جانا
[1] مسند أحمد (۲؍۶۵۶) احمد شاکر نے کہا: اس کی سند صحیح ہے۔